وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک [٦٣] نہ بناؤ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو [٦٤] نیز قریبی رشتہ داروں، یتیموں [٦٥] مسکینوں، رشتہ دار ہمسائے، اجنبی ہمسائے [٦٦] اپنے ہم نشین اور مسافر [٦٧] ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان لونڈی [٦٨] غلاموں سے بھی جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً مغرور [] اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا
43۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے معاذ بن جبل (رض) سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پرا للہ کا کیا حق ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر آپ نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ اگر بندے ایسا کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ کہ اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اس کے بعد اللہ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی اس لیے کہ دنیا میں کسی کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ اطاعت و الدین کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اپنی عبادت اور والدین کے ساتھ احسان و سلوک کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرا شکر ادا کرو اور والدین کا۔ اور فرمایا İوَقَضى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناًĬ یعنی اللہ نے یہ فیصلہ کردیا کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اس کے بعد اللہ نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ مسکین کو صدقہ دینا صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا صدقہ اور صلہ رحمی ہے (مسند احمد ترمذی، ابن ماجہ، نسائی) اور یتیموں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اس لیے کہ ان کے باپ جو ان کی دیکھ بھال کرسکتے تھے دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ اور مسکینوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی مالی استعداد نہیں رکھتے، اور رشتہ دار اور غیر رشتہ دار پڑوسیوں کے ساتھ۔ (امام احمد نے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : جبرئیل پڑوسی کے بارے میں مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ عنقریب ہی اسے وارث بنا دیا جائے گا) اور پہلو سے لگے ہوئے ساتھی کے ساتھ جیسے بیوی، سفر کا ساتھی، کام کا ساتھی وغیرہ اور مسافر کے ساتھ اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، اس لیے کہ غلامی سے بڑھ کر انسان کی اور کوئی کمزور نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مرض الموت میں فرمایا کہ اے مسلمانو دیکھو نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ وہ متکبر کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک حقیر اور لوگوں کی نگاہوں میں مبغوض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔