يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے۔ اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے [١] ہیں اور اللہ بخشنے والا' رحم کرنے والا ہے۔
(1) اس آیت کریمہ کے شان نزول میں دو قسم کی حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے حفصہ (رض) کی باری کے دن ان کے گھر میں، اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ سے مباشرت کرلی، اس وقت حفصہ اپنے میکے چلی گئی تھیں واپس آنے کے بعد جب انہیں اس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے میری باری کے دن میرے گھر میں وہ کام کیا ہے جو کسی دوسرے بیوی کے ساتھ آپ نے کبھی نہیں کیا تو آپ نے کہا، کیا تم یہ پسند نہیں کرو گی کہ میں اب کبھی اس کے قریب نہ جاؤں۔ حفصہ نے کہا : ہاں تو آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور کہا کہ یہ بات کسی کو نہ بتاتا، لیکن حفصہ نے عائشہ کو بتا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس کی خبر کردی اور یہ آیت نازل فرمائی۔ دوسرا واقعہ شہد پینے کا ہے۔ بخاری و مسلم کی عائشہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ آپ زینب بنت جحش کے پاس دیر تک رہتے اور شہد پیتے تھے اس لئے عائشہ اور حفصہ (رض) نے آپس میں طے کیا کہ ہم دونوں میں سے جس کے پاس رسول اللہ (ﷺ) پہلے آیں، آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے ” مغافیر“ کی بو آرہی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو انہوں نے ویسا ہی کہا تو آپ (ﷺ) نے کہا کہ نہیں میں نے زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اب میں کبھی نہیں پیوں گا، میں نے قسم کھالی اور تم کسی کو یہ بات نہ بتانا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ عائشہ (رض) ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے حفصہ (رض) کے پاس شہد پیا اور ان کے پاس ٹھہرے رہے تو عائشہ نے سودہ اور صفیہ کے ساتھ مل کر آپ (ﷺ) سے ” مغافیر“ پینے والی بات کی تھی، مغافیر ایک میٹھا گوند ہوتا ہے جو ” عرفط“ نامی درخت سے ٹپکتا ہے اور بدبو دار ہوتا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ دونوں ہی واقعات صحیح ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ آیت دونوں ہی واقعات کے بعد نازل ہوئی ہو دونوں ہی واقعات میں آتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے واقعہ کے بارے میں اپنی بعض بیویوں سے بات کی اور کہا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ بتائے آیت کریمہ میں نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال بنایا ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے کسی کی مرضی کی خاطر اپنے اوپر حرام کرلے، آیت میں اس بات کی بھی صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اس لغزش کو درگذر فرما دیا ان پر رحم فرمایا۔