مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے اور جو شخص [١٨] اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا [١٩] ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
(11) مفسرین نے اس آیت کریمہ کا سبب نزول کفار مکہ کا یہ قول بیان کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کا دین برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی مصیبتوں میں گرفتار نہ کرتا اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ مصیبت چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی انسان کو اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہی لاحق ہوتی ہے، اس بارے میں اچھے اور برے سبھی برابر ہیں، لیکن جو بندہ مؤمن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسے جو مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مشیت کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ایمان بڑھا دیتا ہے اور اسے سکون قلب عطا فرماتا ہے اور روز قیامت اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الزمر آیت (10) میں فرمایا ہے : ” صبر کرنے والوں کو بے حد و حساب اجر دیا جائے گا۔“ لیکن جو بندہ صبر کا دامن چھوڑ دے گا، اللہ کی تقدیر پر راضی نہیں ہوگا اور جزع فزع کرے گا، اسے اللہ اس کے نفس کے حوالہ کر دے گا، اور قیامت کے دن اسے کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ وہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے، کائنات میں کوئی چیز اس کی اجازت اور اس کے علم کے بغیر وجود میں نہیں آتی اور یہ بات اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی تقدیر پر راضی رہا جائے اور اس کی مشیت کے آگے ہر دم سرتسلیم خم رکھا جائے۔