يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے ایمان والو! اللہ (کے دین) کے مددگار [١٦] بن جاؤ۔ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ : ’’اللہ کی طرف (بلانے میں) کون میرا مددگار ہے؟‘‘ تو حواریوں نے جواب دیا۔ ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی کہ تو وہی [١٧] غالب رہے۔
(14) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی جانوں، اموال، اقوال اور افعال کے ذریعہ اس دین حق کی مدد کرتے رہیں جسے اللہ نے اپنی طاعت و بندگی کے لئے نازل کیا ہے اور جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا، دعوت الی اللہ کے کام میں ان کا ساتھ دیا اور ان سے اپنی جانوں کی قربانی دینے کا وعدہ کیا اسی طرح وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا ہر طرح ساتھ دینے کے لئے تیار رہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہم آپ کی مدد کیں گے تو انہوں نے انہیں اسرائیلیوں اور یونانیوں کے پاس توحید کی دعوت کے ساتھ بھیجا ہمارے رسول (ﷺ) بھی حج کے دنوں میں اسی طرح کہا کرتے تھے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے، تاکہ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤں، اس لئے کہ قریش نے مجھے اس کام سے روک دیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کے لئے مدینہ کے اوس و خزرج والوں کے دلوں کو مسخر کردیا، انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، آپ کی مدد کی اور کہا کہ اگر آپ (ﷺ) ہجرت کر کے مدینہ آجائیں گے تو ہم ہر طرح آپ کا دفاع کریں گے اور جب آپ (ﷺ) دیگر مہاجرین کے ساتھ ہجرت کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اسی لئے اللہ اور اس کے رسول نے انہیں ” انصار“ کا لقب دیا، جو ان کا نام بن گیا۔ اللہ نے آگے فرمایا کہ ہم نے ایمان والی جماعت کی ان کے دشمنوں یعنی یہودیوں اور بت پرست رومیوں کے مقابلے میں مدد کی، اور انہیں غلبہ حاصل ہوا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں مؤمنوں کو ان کے رب کی جانب سے نصرت و تائید اور فتح و کامرانی کی خوشخبری دی گئی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دین حق کی سربلندی کے لئے متحد ہو کر کوشش کریں اور نزاع و اختلاف سے یکسر دور رہیں۔ وباللہ التوفیق۔