يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں [٢٠] ہجرت کرکے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال [٢١] کرلیا کرو۔ اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ پھر اگر تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ (فی الواقع) مومن ہیں تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ ایسی عورتیں ان (کافروں) کے لئے حلال نہیں اور نہ ہی وہ ان عورتوں [٢٢] کے لئے حلال ہیں۔ اور کافروں نے جو کچھ (ایسی مومن عورتوں پر) خرچ کیا ہو انہیں دے دو۔ اور ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کچھ گناہ نہیں جبکہ تم انہیں ان کے حق مہر ادا کردو۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو [٢٣]۔ اور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہے وہ ان (کافروں) سے مانگ لو۔ اور جو مہر کافروں نے اپنی (مسلمان) بیویوں کو دیئے تھے وہ ان (مسلمانوں) سے مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے، دانا ہے۔
(9) صلح حدیبیہ کی شرائط میں یہ بات تھی کہ اگر کوئی کافر مکہ سے بھاگ کر یعنی مسلمان ہو کر مدینہ آجائے گا تو رسول اللہ (ﷺ) اسے مکہ واپس بھیج دیں گے اور اگر کوئی مشرک مدینہ سے مکہ چلا جائے گا تو کفار مکہ اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن اللہ کی حکمت دیکھئے کہ اس میں ان مسلمان عورتوں کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی جو ہجرت کر کے مدینہ آجائیں گی چنانچہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، سبیعہ اسلمیہ اور امیمہ بنت بشر وغیرھا مسلمان عورتیں جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ آگئیں، تو آیات (10/11) نازل ہوئیں، جن کے مطابق رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں مکہ اپس نہیں بھیجا، ام کلثوم دو بھائی عمار اور ولید اس غرض سے مدینہ آئے، لیکن آپ نے انہیں واپس نہیں کیا۔ آیت (10) میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کے ایمان کا امتحان لیں حقیقت حال کا جاننے والا تو صرف اللہ ہے، لیکن قرائن و شواہد سے اگر ان کا ایمان ثابت ہوجائے، تو انہیں کافر شوہروں کے پاس واپس نہ بھجیا جائے، اس لئے مومنہ عورت مشرک کے لئے اب حلال نہیں رہی، ایمان نے اس کا رشتہ اس کے کافر شوہر سے ختم کردیا۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی عورت رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آتی، تو آپ (ﷺ) اس سے قسم لیتے کہ وہ اپنے شوہر سے ناراض ہو کر نہیں آئی ہے، یا مدینہ میں اقامت پذیر ہونے کی غرض سے یا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں آئی ہے، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اپنا گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اگر ان مسلمان عورتوں کے شوہر اس مال کا مطالبہ کریں جو انہوں نے بطور مہر خرچ کیا تھا تو انہیں وہ مال دو اور چاہو تو انہیں مہر دے کر ان سے نکاح کرلو، اگرچہ ان کے شوہر زندہ ہوں، اس لئے کہ اسلام نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک نیا حکم بیان کیا کہ جس طرح مومنہ عورت کا نکاح کافر سے باطل ہوگیا، اسی طرح اب کافرہ عورت کا نکاح بھی مسلمان مرد سے باطل ہوگیا۔ ابن جریر نے کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو حکم دیا ہے کہ اب وہ اپنی کافر بیویں سے ہر قسم کا تعلق ختم کرلیں اور آئندہ مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں، اسی کے بعد مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ان کافر بیویوں کو طلاق دے دیں جو مکہ میں کافر کے ساتھ رہ گئی ہیں۔ امام زہری سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عمر (رض) نے اپنی دو کافرہ بیویوں کو، اور طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی کو طلاق دے دی جو مکہ میں رہ گئی تھی، اور امیمہ بنت بشر انصاریہ جو ثبت بن دحداحہ کی بیوی تھیں جب مسلمان ہو کر اپنے کافر شوہر کے پاس سے بھاگ کر مدینہ آگئیں، تو آپ (ﷺ) نے ان کی شادی سہل بن حنیف سے کردی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جو عورتیں مرتد ہو کر مشرکوں کے پاس چلی جائیں، تو جو مال بطور مہران کے مسلمان شوہروں نے انہیں دیا تھا، اس کا مطالبہ ان کے کفار شوہروں سے کرو، اسی طرح جو مسلمان عورتیں اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر مکہ سے مدین آجائیں، ان کا مہران کے کافر شوہروں کو واپس کر دو اور آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اوپر جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ اللہ کا حکم ہے اور اس کی اتباع میں ہی سب کے لئے خیر و مصلحت ہے۔