لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
انہیں لوگوں میں تمہارے لئے ایک اچھا نمونہ [١٣] ہے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اور جو کوئی سرتابی [١٤] کرے تو بلاشبہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات [١٥] میں محمود ہے۔
(6) ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں (سارہ اور لوط علیہا السلام) کے نقش قدم پر چلنے کی دوبارہ تاکید کی جا رہی ہے، اور مشرکین سے علیحدگی اور برأت پر پھر سے ابھارا جا رہا ہے اس لئے کہ اہل فساد سے دوستی اور تعلق دین حق اور اس کے ماننے والوں کے لئے ہر طرح نقصان دہ ہے، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ دین کی جڑوں کو کمزور کریں، ضعیف الایمان لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کریں اور عوت کی راہ میں روڑے اٹکائیں، اور مومنوں کو آزمائش میں ڈالیں اسی لئے تو اللہ کے دشمنوں سے نفرت کرنا ایمان کا ایک درجہ ہے، کیونکہ جب تک اہل حق حق کے لئے متعصب نہیں ہوں گے اور متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ نہیں کریں گے، حق کو قوت نہیں مل سکتی ہے۔ آیت کا دوسرا حصہ : اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم اور ان کے مومن ساتھیوں کو اپناپیشوا نہ بنانا بدعقیدگی ہے، اسی لئے اس کے بعد کہا گیا : ” جو شخص ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس حکم سے روگردانی کے گا اور اللہ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنائے گا، تو وہ خود نقصان اٹھائے گا اللہ تو اس کے ایمان و بندگی سے بے نیاز ہے۔ “