لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے [٢٦] دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔
(15) اہل جنت اور اہل جہنم کا فرق مراتب بیان کئے جانے کے بعد، اب قرآن کریم کی عظمت شان بیان کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ کتاب عظیم ہے جسے سن کر لوگوں کے دلوں میں اللہ کی خشیت پیدا ہونی چاہئے اور ان پر غایت درجہ کی رقت طاری ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم پہاڑوں کو قرآن کی عظمت و جلال کا ادراک دے دیتے اور انہیں اس میں موجود اوامرونواہی کا پابند بنا دیتے تو وہ اللہ کی عظمت و کبریائی کے لئے ہر دم جھکے رہتے اور اس کے شدت خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے لیکن انسان اپنی حقیقت کو فراموش کر گیا کہ وہ منی کے ایک حقیر قطرہ سے پیدا گیا ہے اور وہ اللہ کی قدرت کے سامنے نہایت کمزور و ناتواں ہے اور کبر و غرور میں مبتلا ہوگیا، اس لئے اس کا دل سخت ہوگیا تو اللہ نے اس پر رحم کرتے ہوئے پہاڑ کی مذکور بالا مثال دی تاکہ اس میں غور کر کے اپنی حالت بدلے، کبر و غرور سے باز آئے اور اللہ کی کبریائی کا تصور کر کے اس سے ہر دم خائف و ترساں رہے۔