سورة النسآء - آیت 24

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی (حرام ہیں) مگر وہ کنیزیں جو تمہارے قبضہ [٤٠] میں آجائیں۔ تمہارے لیے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعہ حاصل [٤١] کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو۔ پھر ان میں سے جن سے تم (نکاح کا) لطف اٹھاؤ انہیں ان کے مقررہ حق مہر ادا کرو۔ ہاں اگر مہر مقرر ہوجانے کے بعد زوجین میں باہمی رضا مندی سے کچھ سمجھوتہ ہوجائے تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اور جو شخص کسی آزاد [٤٢] عورت کو نکاح میں لانے کا مقدور نہ رکھتا ہو وہ کسی مومنہ کنیز سے نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں۔ اور اللہ تمہارے ایمان کا حال خوب جانتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

31۔ جو اجنبی عورتیں شادی شدہ ہوں گی، ان سے شادی حرام ہوگی، جب تک کہ ان کے پہلے شوہر طلاق نہ دے دیں یا وہ مر نہ جائیں، اور وہ عورتیں طلاق یا وفات کی عدت نہ گذار لیں، چاہے وہ عورتیں آزاد ہوں یا لونڈی اور چاہے مسلمان ہوں یا کتابیہ، تاکہ دو مردوں کا نطفہ مل کر بچے کا نسب ضائع نہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ شادی شدہ اجنبی عورتیں جہاد فی سبیل اللہ کی جنگی قیدی بن کر مسلمان کے پاس آجائیں، تو ممکن ہے کہ ان کے شوہر جنگ میں نہ مرے ہوں، لیکن چونکہ دار الحرب میں شوہر اور خاندان سے ان کا تعلق ختم ہوگیا، اور وہ لونڈی بن گئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، ان کے مسلمان مالکوں کو ایک ماہوار گذر جانے کے بعد ان کے ساتھ ہمبستری کرنے کی اجازت دی ہے مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ واقعہ اوطاس کے بعد (جو جنگ حنین کے بعد پیش آیا) کچھ ایسی عورتیں ہماری قید میں آگئیں جن کے شوہر زندہ تھے، تو ہم نے ان کے شوہروں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ ہمبستری کو برا سمجھا، چنانچہ ہم نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اس کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، اور ہم نے ان کے ساتھ ہمبستری کو حلال جانا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر لونڈی کی ملکیت بیع، وراثت، یا کسی اور وجہ سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس کا عقد نکاح منقطع ہوجائے گا، ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، کہ لونڈی کی طلاق چھ طرح سے واقع ہوتی ہے، اسے بیچ دیا جائے، آزاد کردی جائے، ہدیہ کردی جائے، ایک حیض گذر جائے، اس کا شوہر اسے طلاق دے دے، یا اس کا غلام شوہر بیچ دیا جائے، لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ لونڈی کو بیچ دینا طلاق کے مترادف نہیں، اور اس کی دلیل بریرہ (رض) کا مشہور واقعہ ہے، جسے عائشہ (رض) نے خرید کر آزاد کردیا تھا، تو اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اسے اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اپنے شوہر (مغیث) کے ساتھ رہے، اور چاہے تو نکاح کو فسخ کرالے۔ 32۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ اس حکم عام کی بھی دیگر چند محرمات کے ذریعہ تخصیص ہوچکی ہے، وہ محرمات مندرجہ ذیل ہیں۔ عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو عقد نکاح کے ذریعہ جمع کرنا، عدت گذارنے والی عورت، آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، آزاد عورت سے شادی کی قدرت ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں بیوی، نیز لعان کرنے والی عورت ہمیشہ کے لیے لعان کرنے والے مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ 33۔ جن عورتوں سے شادی کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ کسی بھی عورت سے ایک مسلمان عقد زواج کے شرعی شروط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیک وقت ایک سے چار تک شادیاں کرسکتا ہے۔ اور لونڈی تو جتنی چاہے رکھ سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیوی کا مہر مقرر ہو اور ایجاب و قبول کے ذریعہ شادی تمام پائے، اور اعلانیہ یا چھپے طور پر زنا کرنا مقصود نہ ہو۔ آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ شادی میں مہر دینا اللہ نے واجب قرار دیا ہے، بغیر مہر کے شادی شریعت میں جائز نہیں ہے 34۔ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرلی، تو اسے پورا مہر دینا ہوگا، اور اگر ہمبستری نہیں کی ہے، تو آدھا مہر دینا ہوگا، اور اگر پہلے سے مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا، اور ہمبستری بھی نہیں کی، اور طلاق ہوگئی تو اسے کچھ مال دے دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کے عموم سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نکاح متعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے ایک مدت معینہ تک کے لیے نکاح کرلے۔ مثال کے طور پر ایک رات، یا دو رات، یا ایک ہفتہ کے لیے شادی کرے، اور اپنی ضرورت پوری کرلینے کے بعد اسے چھوڑ دے، ابن عباس اور صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ضرورت کے تحت اس کو مباح کہا ہے۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بعد میں رجوع ثابت ہے۔ امام احمد سے بھی یہ منقول ہے۔ ابن عباس، ابی بن کعب، سعید بن جبیر اور سدی نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے، فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن الی اجل مسمی، کہ جن عورتوں سے تم ایک مدت معینہ تک کے لیے فائدہ اٹھاؤ تو انہیں ان کا مقرر شدہ مہر دو، مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت نکاحِ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جمہور کی رائے اس کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، لیکن اس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام کردیا گیا۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا تھا، اور مسلم نے سبرہ بن معبد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ فتح مکہ کے وقت وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا، لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی (اب سن لو کہ) اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے، جس کسی کے پاس کوئی ایسی عورت ہو اسے چھوڑ دے، اور تم نے انہیں جو رقم دی ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، 35۔ جب شوہر مہر کی پور رقم بیوی کو ادا کردے، اس کے بعد بیوی اگر کوئی رقم شوہر کو واپس کردے، یا مؤخر کردے، یا اسے ہدیہ کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ مہر کی رقم اس کی ملکیت میں آجانے کے بعد جسے چاہے وہ دے سکتی ہے۔