وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو ان کے بعد [١٣] آئیں گے اور کہیں گے :''اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں' ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت [١٤] نہ رہنے دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
(8) ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ ہجرت کر کے اس وقت آئے جب اسلام قوی ہوچکا تھا، یعنی ان مہاجرین اولین کے بعد آئے جنہیں ان کے گھروں سے اسلام کی وجہ سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا تھا بعض حضرات نے ان سے مراد وہ تمام مومنین لئے ہیں جو مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے بعد قیامت تک دنیا میں آئیں گے اس دوسری رائے کی مصداق سورۃ التوبہ کی آیت (100) ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : İوَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُĬ ” اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔ “ مہاجرین اولین اور انصار مدینہ کے بعد آنے والے مومنوں کا وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ لوگ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنے تمام گزشتہ مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صفت ایمان میں مشارکت کی وجہ سے مومنین ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں، اسی لئے تو دعا کے دوسرے حصہ میں ” دل میں کھوٹ“ کی نفی کی گئی ہے، جس کی ضد ” آپس میں محبت“ ہے۔ صحابہ کرام کے ذکر کے بعد دعا میں İالَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِĬ کا قول اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور مومنوں سے مراد وہ اہل سنت و جماعت ہیں جن کا ایمان و عقیدہ صحابہ کرام جیسا ہوتا ہے اور جو صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ جو لوگ صحابہ کرام سے نفرت کریں گے، ان کے خلاف دل میں بغض و کینہ رکھیں گے، ان سے اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا اور وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم کردیئے جائیں گے، چاہے وہ رافضی شیعہ ہوں یا دوسرے ملحدین جو صحابہ کرام کی دل سے قدر نہیں کرتے ہیں، امام مالک رحمہ اللہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ جو رافضی صحابہ کرام کو گالی دیتا ہے اس کے لئے مال فئی میں کوئی حصہ نہیں یہ، اس لئے کہ اس آیت میں مذکور مومنین کی کوئی صفت ان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ امت اسلامیہ کے یہی تینوں قسموں کے مومنین ہیں جو مال فئی کے حقدار ہیں، اور جنہیں مال دینا درحقیقت اسلام کو نفع پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آمین، یا رب العالمین