بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سورۃ الحشر مدنی ہے، اس میں چوبیس آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الحشر نام : سورت کی دوسری آیت : آلایۃ میں حشر کا لفظ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کا قول ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سورۃ الحشر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ ” سورۃ بنی نضیر“ ہے، یعنی یہ سورت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس سورت کی تفسیر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن القیم کی زاد المعاد، طبقات ابن سعد اور سیرت ابن ہشام وغیرہ کی مدد سے مدینہ کے قبائل اوس و خزرج اور ان کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودیوں کا مختصر تعارف کرا دیا جائے۔ مدینہ کے قرب و جوار میں تین مشہور قبائل یہود رہتے تھے : بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ، یہ لوگ 132 ء میں رومیوں کے مظالم سے تنگ آ کر فلسطین سے بھاگ کر حجاز آگئے تھے اور ایلہ، مقنا، تیماء وادی القریٰ، فدک اور خیبر وغیرہ کے سرسبز علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ ان کے تقریباً تین صدی کے بعد قبائل اوس و خزرج، یمن کے سیلاب عظیم کی وجہ سے وہاں سے بھاگ کر یثرب میں آباد ہوگئے، رفتار زمانہ کے ساتھ بنی قینقاع قبیلہ خزرج سے اور بنی قریظہ اور بنی نضیر قبیلہ اوس سے قریب ہوتے گئے۔ یہود اپنی سود خوری اور چالاکی و عیاری کی وجہ سے یثرب اور آس پاس کے علاقوں کے اقتصاد پر قابض ہوتے گئے اور اپنی ساکھ دھاک باقی رکھنے کے لئے اوس و خزرج کو ہمیشہ لڑاتے رہے، تاکہ کہیں یہ لوگ متحد ہو کر انہیں دبا نہ دیں۔ نبی کریم (ﷺ) جب مدینہ تشریف لائے تو اوس و خزرج اور مہاجرین مکہ کو ملا کر مسلمانوں کی ایک وحدت قائم کی اور قبائل یہود سے امن اور مدینہ سے دفاع کا متحدہ معاہدہ کرلیا، لیکن یہود نے اس معاہدہ کی پابندی نہیں کی اور اسلام اور مسلمانوں کی روز بروز کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ان کے دلوں میں حسد کی آگ بڑھا دی، انہوں نے نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے ہر ناپاک چال چلنی شروع کردی۔ اوس و خزرج کی پرانی دشمنی کو ان کے درمیان ابھارنے لگے اور جنگ بدر کی کامیابیوں کے بعد تو ان کے بغض و حسد کی آگ اور بھڑک اٹھی بنی نضیر کے سردار کعب بن اشرف نے مکہ جا کر کفار قریش کو دوبارہ جنگ کرنے پر اکسایا اور وہاں سے واپس آ کر اس نے مسلمان عورتوں کے نام لے لے کر عشقیہ شاعری شروع کردی بالآخر نبی کریم (ﷺ) نے اس سے تنگ آ کر محمد بن مسلمہ انصاری کے ذریعہ اس کو قتل کروا دیا۔ بنی قینقاع شہر یثرب میں قبیلہ خزرج کے آس پاس رہتے تھے اور آہن گری کا کام کرتے تھے، ان کو اپنی طاقت اور اپنے سات سو جوانوں پر بڑا ناز تھا۔ ایک دن انہوں نے دن دہاڑے ایک مسلمان عورت کو بازار میں ننگا کردیا جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی کا قتل ہوگیا، اس واقعہ کے بعد نبی کریم (ﷺ) ان کے پاس گئے، انہیں معاہدہ یاد دلایا اور شرافت کے دائرے میں رہنے کی نصیحت کی، لیکن انہوں نے الٹا جواب دیا اور کہا کہ ہم قریش کے لوگ نہیں ہے، جنہیں تم نے میدان بدر میں شکست دے دی، ہم سے سابقہ پڑے گا تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ مرد کسے کہتے ہیں؟ ان کے اس جواب سے رسول اللہ (ﷺ) نے جان لیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اس لئے آپ (ﷺ) نے صحابہ کرام کی جماعت کے ساتھ جا کر ان کے محلے کا محاصرہ کرلیا، ابھی صرف پندرہ دن ہی گذرے تھے کہ انہوں نے آپ سے جان کی امان مانگ لی، آپ نے اس شرط پر ان کی جان بخشی کردی کہ وہ اپنا تمام مال و اسلحہ اور سامان حرفت و صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب داخل کردیا کہ صدیوں سے بسے بسائے گھروں کو پورے سامان کے ساتھ چھوڑ کر وہاں سے خیبر کی طرف چلے گئے، اس واقعہ کے بعد باقی یہود مدینہ کچھ دن تک تو خائف رہے، لیکن جنگ احد کے ایام میں منافقین کے اکسانے پر، اور خود اپنی فطری خباثت کی وجہ سے، مدینہ سے دفاعی معاہدہ کے پابند نہیں رہے اور جنگ احد کے بعد جب نبی کریم (ﷺ) بنی نضیر کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ وہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے کے مطابق ایک مقتول کی دیت ادا کرنے میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں تو انہوں نے موقع کو غنیمت جان کر رسول اللہ (ﷺ) کو قتل کردینے کی سازش کرلی اور طے کیا کہ آپ کے سر پر دیوار کے اوپر سے ایک بڑا پتھر گرا دیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے بروقت بذریعہ وحی آپ کو اس کی اطلاع دے دی چنانچہ وہاں سے فوراً صحابہ کرام کے ساتھ واپس آگئے اور انہیں خبر بھیج دی کہ وہ دس دن کے اندر اپنی بستی چھوڑ دیں، لیکن انہوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شہ پا کر ایسا کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے ربیع الاول 4میں اس کا محاصرہ کرلیا اور بالآخر چند ہی دنوں کے محاصرے کے بعد اس شرط پر اپنی بستی چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہوگئے کہ وہ اسلحہ کے علاوہ جو کچھ بھی اپنے اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں ان میں سے صرف دو آدمی یامین بن عمیر بن کعب اور ابو سعد بن وہب مسلمان ہوگئے اور باقی خیبر اور ان میں سے بعض شام چلے گئے، بنی نضیر کی اسی جلا وطنی کو قرآن کریم نے ” اول حشر“ سے تعبیر کیا ہے وہ لوگ دوسری بار عمر بن خطاب (رض) کے زمانے میں خیبر سے جلا وطن ہو کر شام چلے گئے جو ان کا ” حشر ثانی“ تھا، اور تیسرا حشر قیامت کے دن ہوگا جس کے بارے میں بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ وہ سر زمین شام میں ہی ہوگا نبی کریم (ﷺ) ان کے چھوڑے ہوئے اموال و اسباب کو مہاجرین میں تقسیم کردیا، بنو نضیر کی جلا وطنی کا مذکورہ بالا واقعہ ہی اس سورت کا مرکزی موضوع ہے اب آئیے ہم سورت کا مطالعہ کریں۔