أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسے لوگوں سے دوستی لگائی جن پر [١٨] اللہ کا غضب ہوا۔ نہ تو وہ تم میں سے ہیں اور نہ ہی ان میں سے۔ اور وہ دیدہ دانستہ جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے [١٩] ہیں
(11) جن دنوں یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی، ان دنوں منافقین کا نفاق انتہاء کو پہنچ چکا تھا، رات دن وہ لوگ یہودیوں کے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور انہیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں انہی منافقین کا پردہ فاش کیا گیا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور نہ وہ یہودیوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر آیت (11) میں بھی منافقوں کی اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے اور کہا ہے : الآیۃ ” کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔“ اور سورۃ النساء آیت (143) میں فرمایا ہے : ” وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں نہ پورے ان کی طرف، نہ صحیح طور سے ان کی طرف“ کی تفسیر ابن جریر طبری نے یہ بیان کی ہے کہ منافقین رسول اللہ (ﷺ) سے کہتے تھے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، حالانکہ وہ اپنی گواہی میں جھوٹے ہوتے تھے، یعنی وہ جانتے تھے کہ صدق دل سے یہ گواہی نہیں دے رہے ہیں۔