يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے (مساکین کو) صدقہ کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ [١٦] تر بات ہے۔ ہاں اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
(10) حسن بصری کا قول ہے کہ یہ آیت بعض مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو نبی کریم (ﷺ) سے بار بار خلوت میں بات کرتے تھے تو دوسرے صحابہ پر اس کا برا اثر پڑتا تھا وہ سوچتے تھے کہ ہمارا درجہ رسول اللہ (ﷺ) کے نزدیک کم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم دیا، تاکہ آپ (ﷺ) سے سرگوشی کرنے والے کم ہوجائیں۔ زید بن اسلم کا قول ہے کہ ایسا یہود و منافقین کرتے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ محمد کان کا کچا ہے، ہر ایک کی بات پر کان دھر لیتا ہے اور کسی کو اپنے ساتھ سرگوشی کرنے سے نہیں روکتا ہے اور مخلص صحابہ کرام پر اس کا برا اثر پڑتا تھا، شیطان ان کے دلوں میں شک ڈال دیتا تھا کہ شاید انہوں نے مسلمانوں کے کسی دشمن فوج کی بات کی ہے جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے جمع ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آیت (9) نازل فرمائی، لیکن یہود و منافقین اپنی شرارت سے باز نہیں آئے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں آپ (ﷺ) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کا حکم دیا گیا چنانچہ یہود و منافقین مخلص نہ ہونے کی وجہ سے اور مال کی محبت میں سرگوشی کرنے سے رک گئے، لیکن غریب مسلمانوں پر یہ حکم شاق گذرا وہ نبی کریم (ﷺ) سے ضروری مسائل پوچھنا چاہتے اور صدقہ کے لئے مال نہ ہونے کی وجہ سے آپ (ﷺ) سے بات نہ کر پاتے چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نبی کریم (ﷺ) سے بات کرتے وقت ان کا غایت درجہ احترام کریں، اور پاس ادب ملحوظ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعنی ” نبی کریم (ﷺ) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینا تمہارے لئے ہر طرح بہتر ہے“ تمہیں اس کا کئی گنا اجر و ثواب ملے گا اور تمہارے غریب مسلمان بھائیوں کا بھلا ہوگا پھر اللہ نے فرمایا : ” اگر صدقہ کے لئے تمہارے پاس مال نہ ہو، تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ “