يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا کرے [٥١] گا اور ایسا نور [٥٢] بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہیں معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
(26) ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کے زمانے کے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کیا ہے جو گزشتہ انبیائے کرام پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتےتھے اور انہیں ان کے دعویٰ کے مطابق اہل ایمان کا خطاب دے کر اللہ سے ڈرنے اور نبی کریم (ﷺ) پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو انہیں دوگنا اجر ملے گا ایک اجر گزشتہ نبی پر ایمان لانے کا اور دوسرا اجر نبی کریم (ﷺ) پر ایمان لانے کا، بخاری و مسلم نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ ان میں پہلا اہل کتاب کا وہ آدمی ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا الحدیث سعید بن جبیر کہتے، جب اہل کتاب نے فخر کیا کہ انہیں دوہرا اجر ملے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت امت محمدیہ کے بارے میں نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا : ” قیامت کے دن تمہیں ایک نور ملے گا جس کی مدد سے پل صراط پار کر جاؤ گے“ جیسا کہ سورۃ التحریم آیت (8) میں آیا ہے : ” ان کا نور ان کے آگے دوڑتا ہوگا“ بعض مفسرین نے کی تفسیر ” دین کا واضح راستہ“ کیا ہے۔ سورۃ الانفال آیت (29) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تم کو فرقان دے گا“ یعنی تمہارے لئے حق کو واضح کردے گا۔