يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
منافق مومنوں کو پکار کر کہیں گے :’’کیا ہم (دنیا میں) تمہارے ساتھ [٢٣] نہ تھے؟‘‘ (مومن) کہیں گے، کیوں نہیں، لیکن تم نے تو خود اپنے آپ کو فتنہ [٢٤] میں ڈالا۔ اور (موقع کی) انتظار کرتے رہے اور شک [٢٥] میں پڑے رہے اور جھوٹی آرزوئیں تمہیں دھوکہ میں ڈالے رہیں تاآنکہ اللہ کا حکم آپہنچا [٢٦] اور (اس وقت تک) بڑا دھوکہ باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکا ہی دیتا رہا
(14) جب مومنوں اور منافقوں کے درمیان موٹی دیوار حائل ہوجائے گی، تو منافقین شدت حسرت ویاس کے ساتھ پھر اہل ایمان کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ کیا ہم تمہاری ہی طرح بظاہر مومن نہیں تھے؟ تمہاری مسجدوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے اور تمہاری ہی طرح دوسرے نیک اعمال نہیں کرتے تھے، پھر آخر آج ہمارا یہ حشرکوں ہو رہا ہے؟! تو مومنین انہیں جواب دیں گے کہ ہاں تم دنیا میں ہمارے ساتھ تھے، بظاہر ہماری ہی طرح مومن تھے اور نیک اعمال کرتے تھے لیکن فی الحقیقت نہ تم مومن تھے نہ ہی تمہاری نیت صحیح تھی اور نہ تمہارے اعمال میں اخلاص وللہیت تھی، تم لوگ کفر ونفاق کی بیماری میں مبتلا رہے اور شہوتوں اور لذتوں کی بندگی کرتے رہے اور ہر لمحہ نبی کریم (ﷺ) اور مومنوں کے لئے برا ہی سوچتے رہے اور جھوٹی تمناؤں سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا اور مخلص مسلمانوں کی طرح ہم بھی جنت میں جائیں گے۔ کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم (منافقین) یہی تمنا کرتے رہے کہ ایک دن مسلمان ضرور کمزور ہوجائیں گے اور تم اسی دھوکے میں پڑے رہے، یہاں تک کہ موت نے تمہیں آدبوچا اور تمہیں توبہ کی توفیق نہیں ملی، یا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مدد کی، اپنے دین کو غالب کیا اور تمہاری تمنا خاک میں مل گئی کہ مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور اللہ کے حکم اور اس کی جانب سے مہلت دیئے جانے کا تم نے غلط مطلب نکالا، شیطان کے بہکاوے میں آگئے، اور کفر و نفاق پر مصر رہے یہاں تک کہ موت آگئی۔