يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ
اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمانداروں سے کہیں گے :’’ہماری طرف دیکھو [٢٠] تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرسکیں‘‘ انہیں کہا جائے گا : پیچھے چلے [٢١] جاؤ اور نور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ [٢٢] ہوگا اس دروازے کے اندر تو رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہوگا۔
(13) اس دن منافق مرد اور عورتیں جب مومنوں کے آگے اور دائیں نور دیکھیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ نور انہیں جوق در جوق جنت کی طرف لے جا رہا ہے اور وہ اپنے نفاق کی تاریکیوں میں غلطاں و پیچاں ہوں گے تو اہل جنت کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ذرا ایک نظر ہماری طرف دیکھ لو، تاکہ تمہارے نور کی روشنی ہماری طرف بھی ہوجائے اور ہم بھی اس طرف چل پڑیں جدھر تم جا رہے ہو۔ ابن جریر نے ” انظرونا“ کا معنی ” انتظرونا“ کیا ہے، یعنی جب اہل جنت تیزی کے ساتھ جنت کی طرف جا رہے ہوں گے تو منافقین ان سے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار کرلو اور ہمارے لئے بھی سفارش کر دو، تاکہ ہم بھی تمہارے ساتھ چلے جائیں۔ ان کی یہ بات سن کر فرشتے یا مومنین انہیں دھتکاریں گے اور کہیں گے کہ جاؤ، وہاں نور ڈھونڈ ھو جہاں سے ہمیں ملا ہے، یعنی میدان محشر میں یا مفہوم یہ ہے کہ یہ تو ایمان کا نور ہے جو دنیا میں ہمیں ملا تھا، اس لئے تم دنیا میں واپس جا کر وہاں سے یہ نور حاصل کرو یا مفہوم یہ ہے کہ خائب و خاسر پیچھے جاؤ اور اپنے لئے کوئی اور نور تلاش کرو۔ اس گفتگو کے بعد مومنوں اور منافقوں کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل ہوجائے گی جو منافقوں کو مومنوں کے نور سے بالکل دور کر دے گی اور ان کی تاریکی زیادہ گہری ہوجائے گی اور اس دیوار میں ایک دروازہ جنت کی جانب کھلے گا جس سے اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے اور منافقین انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جائیں گے، اس دروازے کے اندر جنت اور اس کی نعمتیں ہوں گی اور اس کے باہر جدھر منافقفین ہوں گے، گھٹا ٹوپ تاریکی ہوگی اور عذاب نار ہوگا۔