آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ [٩] اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں جانشین [١٠] بنایا ہے، تو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور خرچ کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے
(7) اس آیت کریمہ میں بندوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایسا یقینی ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جس کا اثر ان کے عمل میں ظاہر ہو اور اللہ کے عطا کئے گئے مال و دولت سے اس کی راہ میں خرچ کرنا نفس پر گراں نہ گذرے۔ ابن آدم کے پاس جو مال ہوتا ہے اس میں جائز طور پر تصرف کرنے کے لئے وہ اللہ کی جانب سے خلیفہ اور نائب ہوتا ہے، بایں معنی کہ مال کا حقیقی مالک اللہ ہے اور انسان کو اس میں تصرف کرنے کے لئے خلیفہ بنایا گیا ہے یا یہ کہ مال کسی اور کا ہوتا ہے اور اس کے دنیا سے گذر جانے کے بعد اس مال کا مالک اس کے ورثہ بن جاتے ہیں دونوں ہی صورتوں میں مقصود انسان کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر ابھارنا ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کا ہی دیا ہوا مال ہے، اس لئے اس کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ آیت کے آخر میں ایسے اہل ایمان اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو اجر کبیر یعنی جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔