هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر [٥] قائم ہوا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی، اسے بھی جانتا ہے اور جو نکلتی ہے اسے بھی (اسی طرح) جو چیز آسمان سے اترتی ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا [٦] ہے اسے بھی۔ اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو [٧] کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے
(4) اس آیت کی مفصل تفسیر کے لئے دوبارہ سورۃ الاعراف آیت (54) یونس آیت (3) الفرقان آیت (59) اور السجدہ آیت (4) کی تفسیر دیکھ لیجیے۔ مذکورہ بالا آیتوں کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیا ن کی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوگیا، یعنی اپنی تمام مخلوقات کے اوپر، اور ایسا استواء جو اس کے جلال کے لائق ہے۔ وہ اپنی ان تمام مخلوقات کی تعداد اور ان کی جزئیات کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں، بارش کے قطرات، حیوانات، دانے، مردے اجسام اور دیگر تمام اشیاء جو زمین کی تہوں میں ہیں، اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے وہ ان تمام دانوں، اور پھلوں اور پھولوں کی تعداد اور جزئیات کو بھی جانتا ہے جو زمین سے باہر نکلتی ہیں اور اسے ان تمام چیزوں کی تعداد اور جزئیات کی بھی خبر ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتی ہیں، جیسے بارش، برف، اولے، مخلوق کی تقدیر و قسمت، ان کی روزی اور وہ تمام احکام الٰہی جنہیں فرشتے لے کر اترتے ہیں اور جن کا اس کے حکم سے زمین میں نفاذ ہوتا ہے اسی طرح اسے ان تمام چیزوں کی تعداد اور جزئیات معلوم ہیں جو زمین سے آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے فرشتے جو مختلف دنیاوی ذمہ داریوں کے لئے مکلف ہیں، بندوں کے اچھے اور برے اعمال، روحیں، مظلوم کی آہ اور بندوں کی دعائیں۔ اللہ کا علم آسمانوں اور زمین میں وقوع پذیر ہونے والی تمام چیزوں کو محیط ہے، ایک ذرہ بھی کہیں اس سے مخفی نہیں ہے۔ وہ اپنے علم کے ذریعہ ہر جگہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے، بحر و بر کے جس گوشے میں بھی ہوں، وہ ان کے اعمال و حرکات اور ان سے متعلق ہر چیز سے واقف ہے، جبھی تو وہ انہیں روزی پہنچاتا ہے، ان کی نگہداشت کرتا ہے، اور جب ان کی زندگی کے ایام پورے ہوجاتے ہیں تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” شرح حدیث النزول“ میں لکھا ہے کہ سورۃ الحدید اور سورۃ المجادلہ میں وارد ” معیت“ کی علمائے سلف کے نزدیک تفسیر یہ ہے کہ ” اللہ اپنے بندوں کے ساتھ اپنے علم کے ذریعہ ہے“ امام ابن عبدالبر اور دیگر ائمہ نے صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے، ابن عباس (رض) ضحاک مقاتل بن حیان، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل وغیرہم سے یہی تفسیر مروی ہے ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔