وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو تاآنکہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان میں اہلیت [٩] معلوم کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور ضرورت سے زیادہ اور موزوں وقت سے پیشتر اس ارادہ سے ان کا [١٠] مال نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اس کا مطالبہ کریں گے۔ اور جو سرپرست کھاتا پیتا ہو اسے چاہئے کہ یتیم کے مال سے کچھ نہ لے اور جو محتاج ہو وہ اپنا حق الخدمت دستور [١١] کے مطابق کھا سکتا ہے۔ پھر جب تم یتیموں کا مال انہیں واپس کرو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو۔ اور (یہ بھی یاد رکھنا کہ)[١٢] حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے
8۔ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ کبھی کبھار کچھ مال دے کر عقلی اور مالی معاملات میں ان کی ذہنی صلاحیت کا امتحان لیتے رہو، اور جب بالغ ہوجائیں یعنی انہیں احتلام ہونے لگے، یا ان کی عمر پندرہ سال ہوجائے، اور تمہارے مشاہدے میں یہ بات آجائے کہ ان میں نیکی ہے، اور مالی امور میں سمجھدار اور ہوشیار ہیں، تو ان کا مال بغیر تاخیر ان کے حوالے کردو۔ آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو یتیم دینی یا مالی اعتبار سے نااہل ثابت ہوگا، مثال کے طور پر فضول خرچ ہوگا، یا ذہنی اور عقلی طور پر کمزور ہوگا، یا دینی اعتبار سے قابل اعتماد نہ ہوگا، تو اس کا مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے اولیاء کو نصیحت کی ہے کہ یتیموں کے مال میں فضول خرچی نہ کرو، اور تمہاری یہ نیت نہ ہو کہ ان کے بڑے ہونے سے پہلے ان کا مال بے جا خرچ کرو، اس ڈر سے کہ بڑا ہونے کے بعد وہ اپنا مال تم سے لے لیں گے، اور اگر یتیم کا ولی مالدار ہے، تو اسے اس کا مال کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ وہ مال اس کے لیے مردے اور خون کی مانند حرام ہے اور اگر غریب ہے، اور یتیم کے مال کی دیکھ بھال اور اس میں کاروبار کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے دوسرا کام نہیں کرسکتا، اور دیکھ بھال نہ کرنے سے یتیم کا مال ضائع ہوجائے گا، تو اپنی ضرورت اور اپنی محنت کی مناسب مزدوری لے لے۔ حافظ ابن کثیر نے فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنی مزدوری اور اپنی ضرورت میں سے جو کم ہوگا وہ لے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب سن بلوغ کو پہنچنے اور عقل و سمجھ کا یقین ہونے کے بعد، یتیم کا مال اس کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو، تاکہ بعد میں کوئی تمہیں متہم نہ کرے، اور کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے، اور اللہ تو سب سے بڑا گواہ اور تمہارے ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے، اس لیے یتیم کا مال پوری امانت کے ساتھ اس کی طرف منتقل کردو۔