سورة النسآء - آیت 5

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو۔ [٨] جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کے مال سے انہیں کھلاؤ بھی اور پہناؤ بھی اور جب ان سے بات کرو تو اچھی (اور ان کے فائدے کی) بات کرو

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

6۔ آیت میں سفہاء سے مراد کون لوگ ہیں، اس بارے میں علماء کی تین رائیں ہیں : پہلی رائے یہ ہے کہ ان سے مراد کم عقل اور نابالغ ایتام ہیں۔ ان کے اولیاء کو منع کیا گیا ہے کہ ان کا مال ان کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ وہ اپنی ناسمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے اسے ضائع کردیں گے۔ اور مال کی نسبت اولیاء کی طرف اس لیے کی گئی ہے، تاکہ انہیں احساس دلایا جائے کہ ان کے رشتہ دار یتیموں کا مال انہی کا مال ہے، اور اس کی حفاظت ان پر اپنے مال کی حفاظت کی طرح واجب ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد عورتیں اور بچے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا مال اپنی عورتوں اور بچوں کو دینے سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنا مال انہیں دے کر خود ان کا محتاج بن جائے اور ان کا منہ تکتا رہے، اور ان کے لیے سفہاء کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے، یہ اشارہ ہے اس طرف کہ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے مال کی حفاظت نہیں کر پائیں گے، بلکہ ضائع کردیں گے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد ہر وہ آدمی ہے جس کے پاس مال کی حفاظت کے لیے کافی عقل نہ ہو۔ اس رائے کے مطابق آیت کا حکم عورتوں، بچوں، یتیموں اور ان تمام لوگوں کو شامل ہوگا جو کم عقل اور نادان ہوں گے حافظ ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ نادانوں پر مالی معاملات کرنے کی پابندی لگانا اسی آیت سے ماخوذ ہے، یہ پابندی کئی اسباب سے لگتی ہے، کبھی کم سنی کی وجہ سے، کبھی جنون کی وجہ سے، کبھی کم عقلی یا بے دینی کی وجہ سے، جس کے زیر اثر آدمی مال کو ضائع کرے، اور کبھی مفلس آدمی پر پابندی لگا دی جاتی ہے، تاکہ اس کا مال بیچ کر اس کے قرضداروں کا قرض ادا کیا جائے۔ 7۔ اس میں مال کی حفاظت کی ترغیب دلائی گئی ہے، اس لیے کہ آدمی کے دنیاوی حالات بغیر مال کے متوازن نہیں رہتے۔ زمخشری نے سلف کا قول نقل کیا ہے کہ ” مال مؤمن کا ہتھیار ہے“ سفیان ثوری کے پاس ایک سامان تھا، اسے وہ الٹتے پلٹتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو بنی عباس مجھے اپنے ہاتھ کا رومال بنا لیتے۔ اس کے بعد اللہ نے نصیحت کی کہ ان یتیموں کو یا اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو کھانے اور کپڑے کا خرچ دیتے رہو، ان پر تنگی نہ کرو، ایک معنی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس مال سے تجارت کرو، اور ان نادانوں کا خرچ نفع کے مال سے دو، تاکہ اصل مال ختم نہ ہوجائے، اور ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو، اور انہیں کہو کہ جب تم سمجھ دار ہوجاؤ گے تو تمہارا مال تمہارے حوال کردیں گے، باپ بیٹے سے کہے کہ میرا مال تمہارا ہی مال ہے، جب بڑے ہوجاؤ گے اور زندگی کا تجربہ ہوجائے گا تو تمہیں مال دیا کروں گا۔