سورة الفاتحة - آیت 5

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں [١٠] اور تجھی سے مدد [١١] چاہتے ہیں [١٢]

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

عبادت کا لغوی معنی ہے : ذلت اور خشوع و خضوع۔ شریعت اسلامیہ میں عبادت ہر اس عمل کو کہتے ہیں، جس میں اللہ کے لیے کمال محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع و خضوع اور خوف شامل ہو۔ استعانت کا مفہوم یہ ہے کہ حصول نفع اور دفع ضرر کے لیے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں عبادت و استعانت دونوں کو اللہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اور اللہ علاوہ تمام مخلوقات سے ان کی نفی کی گئی ہے۔ عربی زبان میں اگر مفعول کو فعل پر مقدم کریا جائے تو حصر کا معنی دیتا ہے، یعنی اس فعل کو اسی مفعول کے ساتھ خاص کردیا جاتا ہے، اور دوسروں سے اس کی نفی ہوجاتی ہے، تو گویا آیت کا معنی یہ ہوا، کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر ایک غلامی سے آزاد کر کے ایک اللہ کا بندہ بنا دے، اس کے ساتھ کسی چیز کو عبادت میں شریک نہ کرے، نہ اس جیسی کسی سے محبت کرے، اور نہ اس جیسا کسی سے ڈرے، نہ اس جیسی کسی سے امید رکھے، صرف اسی پر توکل کرے، نذر و نیاز، خشوع خضوع، تذلل و تعظیم اور سجدہ و تقرب سب کا مستحق صرف وہ ہے، جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ لیکن انسان نے ہمیشہ ہی اس تعلیم کو پس پشت ڈالا، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، غیروں سے مدد مانگی، شرک کے ارتکاب کے لیے بہانے تلاش کیے اور اللہ کے بجائے انبیاء اولیاء، صالحین اور قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگی۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نبوت پر ایمان قوی ہوجاتا ہے، جب ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فرمان کو یاد کرتے ہیں کہ اے لوگو ! اس شرک سے بچو، یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز ہے (مسند احمد) حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُĬ کہے۔ اس لیے کہ شیطان اسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے، اس لیے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ہم تیری توحید بیان کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لیے اور اپنے تمام امور میں۔ عبادت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی وقت قابل قبول ہوگی، جب وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت کے مطابق ہو، اور اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔ توحید کی تین قسمیں : اس سورت میں توحید کی تینوں قسموں کو اختصار کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ 1۔ توحید ربوبیت : رب العالمین سے ماخوذ ہے۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ آسمان و زمین اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق ورازق اور مالک و مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے 2۔ توحید الوہیت۔ لفظ اللہ اور إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُĬ سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں ان سب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ 3۔ توحید اسماء و صفات۔ کلمہ، الحمد، سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صحیح احادیث میں اللہ کے جتنے اسماء و صفات ثابت کیے ہیں، ان کو اسی طرح مانا جائے، نہ ان کا انکار کیا جائے، نہ ان کی مثال بیان کی جائے اور نہ ہی کسی غیر اللہ کے ناموں اور صفات کے ساتھ تشبیہ دی جائے۔ حضرت امام مالک (رح) سے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا الاستواء معلوم، والکیف مجہول والسوال عنہ بدعۃ والایمان بہ واجب۔ یعنی استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، یعنی یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیا کیفیت ہے، اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے، یعنی اسلاف کرام کبھی اس کی کرید میں نہ پڑے، اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔