يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّن نَّارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنتَصِرَانِ
تم پر آگ کے شعلے اور سخت گرم دھواں [٢٤] چھوڑ دیا جائے گا، پھر تم اپنا بچاؤ نہ کرسکو گے [٢٥]
(16) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آیات (33) اور (35) میں جو بات کہی گئی ہے، اس کے مخاطب قیامت کے دن کفار و مشرکین ہوں گے یعنی میدان محشر میں فرشتے تمام جن و انس کو چاروں طرف سے گھیر لیں گے، کوئی وہاں سے بھاگ نہیں سکے گا اور کفار جب جہنم کو دیکھ کر بھاگنا چاہیں گے تو فرشتے انہیں انگاروں سے مار مار کر واپس کریں گے اور ان پر بہتا ہوا تانبا ڈالیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ اب تم کہیں بھاگ نہ سکو گے اور کوئی تمہاری مدد نہ کرسکے گا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” طریق الہجرتین“ میں ان آیات کی تفسیر میں یہ بات لکھی ہے اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ جب کفار جہنم کے چنگھاڑنے کی آواز سنیں گے، تو مارے دہشت کے بھاگیں گے، لیکن جدھر جائیں گے فرشتوں کو صفیں باندھے پائیں گے، تو اپنی پہلی جگہ پر لوٹ آئیں گے۔ اور یہ تحذیر وتحدید بلاشبہ ایک نعمت ہے کہ آدمی اس میں غور و فکر کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ نیز یہ بھی اللہ کی نعمت ہے کہ وہ قیامت کے دن کافروں سے انتقام لے گا اور اپنے فرمانبردار بندوں کو جنت جیسی نعمت سے نوازے گا۔