وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں کو ان کے مال واپس کردو۔ اور ان کی کسی اچھی چیز کے بدلے انہیں گھٹیا چیز نہ دو، نہ ہی ان کا مال اپنے مال میں ملا کر خود اس سے کھانے کی کوشش کرو۔ یہ بڑی گناہ کی [٤] بات ہے
2۔ اوپر کی آیت میں تقوی کی زندگی اختیار کرنے کا اللہ نے جو حکم دیا ہے، اسی کی اب تفصیل بیان کیا جا رہی ہے۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کو دیگر احکام پر مقدم کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کی اہمیت کا احساس دلایا ہے، لفظی طور پر یتیم ہر اس آدمی کو کہتے ہیں جس کا باپ وفات پا چکا ہو، لیکن شرعی اصطلاح میں یہ لفظ اس بچے کے لیے خاص ہوگیا ہے جس کے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے اس کا باپ مر گیا ہو۔ ابو داود نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، بلوغت کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی۔ آیت میں یتیموں سے مراد وہ نوجوان ہیں جو ابھی ابھی سن بلوغت کو پہنچے ہوں، اور ان پر ہوشمندی کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اولیاء اور اوصیاء کو حکم دیا ہے کہ ان کا مال انہیں دینے میں ٹال مٹول نہ کریں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ یتیموں کا مال اپنے مال سے نہ بدل لیا کرو، کیوں کہ ان کا مال تمہارے لیے حرام اور خبیث ہے، اور تمہارا مال تمہارے لیے حلال اور طیب ہے، لہذا تم تھوڑے سے فائدہ کے لیے حلال اور طیب دے کر حرام اور خبیث کو نہ قبول کرو، زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو ایک اور فعلِ منکر سے منع کیا، جس کا ارتکاب زمانہ جاہلیت میں لوگ کرتے تھے کہ اپنے مال کے ساتھ یتیموں کا مال ملا لیا کرتے تھے، تاکہ اخراجات میں وسعت پیدا ہوجائے، اللہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر نیت یتیموں کے ساتھ بھلائی کی ہو تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا:، - 220۔ (تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر کا مطالعہ کیجیے)