سورة الطور - آیت 38

أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ (عالم بالا کی) باتیں سن آتے ہیں؟ (اگر ایسی بات ہو) تو ان میں سے کوئی سننے والا [٣٢] صریح سند کے ساتھ وہ بات پیش کرے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(19) اس آیت میں بھی استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی کیا انکے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ وہ آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور فرشتوں کی وہ باتیں سن لیتے ہیں جو انہیں بذریعہ وحی معلوم ہوتی ہے اور اس طرح انہیں غیب کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور اگر وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں، تو اپنی صداقت پر دلیل پیش کریں اور وہ دلیل کیسے پیش کرسکیں گے، غیب کی خبریں تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، وہ کسی کو بھی ان پر مطلع نہیں کرتا ہے، سوائے اس رسول کے جسے وہ اپنی پیغام رسانی کے لئے چن لیتا ہے، تو اسے جتنی باتوں کی چاہتا ہے خبر دیتا ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، جنہیں اس نے اپنی توحید اور دین اسلام کی صداقت کی خبر دی ہے اور مشرکین مکہ نادان، گمراہ اور کبرو عناد میں مبتلا ہیں، جن کے پاس آسمان سے کوئی خبر نہیں آتی ہے تو بھلا کس کی بات مانی جائے، ان کی یا محمد (ﷺ) کی جن کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔