أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
یا کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی [٢٨] پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے) خالق [٢٩] ہیں۔
(16) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے خلاف حجت قائم کرنے کے لئے ایک ایسا طرز استدلال اختیار کیا ہے، جس کے نتیجہ میں انہیں باری تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرلینا چاہئے، ورنہ بصورت انکار، ان پر حجت قائم ہوجائے گی کہ ان کا اعتقاد مشرکانہ دین اور عقل سب کے خلاف ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ان کا عقیدہ انکار توحید و رسالت اس دعویٰ کو مستلزم ہے کہ انہیں اللہ نے نہیں پیدا کیا ہے اور ایسا دعویٰ کرنا تین حالتوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہے یا تو وہ یہ کہیں کہ انہیں کسی خالق نے پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ از خود وجود میں آگئے ہیں اور یہ بات عین محال ہے، یا یہ کہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی پیدا کیا ہے، یہ بھی محال ہے، اس لئے کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو پیدا کرے اور جب یہ دونوں صورتیں ناممکن ہوئیں، تو تیسری بات ثابت ہوگئی کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ صرف وہی ذات برحق عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔