وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال و دولت عطا کی ہے، پھر وہ اس میں بخل کرتے ہیں قطعاً یہ نہ سمجھیں کہ یہ بخل ان کے حق میں اچھا ہے، بلکہ یہ ان کے لیے بہت برا ہے جس چیز کا وہ بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن وہی چیز ان کے گلے کا طوق [١٧٨] بن جائے گی۔ اور آسمانوں اور زمین کی میراث [١٧٩] تو اللہ ہی کی ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
120۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان کی قربانی دینے کی خوب ترغیب دلائی ہے، اور یہاں مال کی قربانی پر زور دیا ہے، اور بخیلوں کے لیے وعیدِ شدید کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مال جمع کرنا ان کے لیے نفع بخش ہے، یہ تو قیامت کے دن عذاب الیم کا سبب بنے گا اور طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ امام بخاری نے کتاب الزکاۃ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مال دیا اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن وہ ایک زہریلا سانپ بن کر اس کے سامنے آئے گا، جس کی دونوں آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور اسے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا، پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، اس کے بعد اللہ کے رسول نے یہی آیت پڑھی۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، ان کا مالک تو اللہ ہے، پھر کسی کو کیسے یہ جرأت ہوتی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتا؟