يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے پرہیز [١٩] کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کی عیب [٢٠] جوئی نہ کرو، نہ ہی تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت [٢١] کرے، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم تو خود اس کام کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرتے ہو۔ اللہ ہر وقت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
(10) اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بدظنی، تجسس اور غیبت سے منع فرمایا ہے، اس لئے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، اس کے خلاف تجسس نہ کیا جائے، اور اس کی غیبت نہ کی جائے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب یہ بیان کیا کہ بعض بدظنی انسان کو گناہ تک پہنچا دیتی ہے، جیسے کہ نیک لوگوں سے بدظنی کی وجہ سے ان کے بارے میں بری باتیں پھیلائی جائیں۔ زجاج کہتے ہیں کہ آیت میں ” ظن“ سے مراد اہل خیر کے بارے میں بدظنی رکھنی ہے، بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی خیال رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرطبی نے اکثر علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہو، اس کے بارے میں بدظنی جائز نہیں ہے اور جس کا ظاہر خراب ہو اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تجسس یہ ہے کہ کوئی شخص مسلمانوں کے عیوب اور ان کی پوشیدہ باتوں کی کرید میں لگا رہے ، اللہ تعالیٰ نے تو ان عیوب اور پوشیدہ باتوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ ان سے پردہ ہٹا دینا چاہتا ہے۔ اور غیبت یہ ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی بات کہی جائے جسے وہ پسند نہیں کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : غیبت یہ ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں وہ بات کہی جائے جو اس کے اندر موجود ہے، اور اگر وہ برائی اس کے اندر نہیں ہے تو وہ بہتان ہے اور آیت میں غیبت کو مردے کا گوشت کھانے سے اس لئے تشبیہ دیا گیا ہے کہ جس طرح مردہ کو خبر نہیں ہوتی کہ کوئی اس کا گوشت کھا رہا ہے اسی طرح غیبت کئے جانے والے کو خبر نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی عیب جوئی کر رہا ہے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ آدمی کی عزت اس کے گوشت کے مانند ہے، جس طرح اس کا گوشت کھانا حرام ہے، اسی طرح اس کی عزت کے بارے میں بات کرنی بھی حرام ہے اور مقصود غیبت سے نفرت دلانی ہے، کیونکہ انسانی طبیعتیں ادمی کا گوشت کھانے سے نفرت کرتی ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانو ! جن برے اعمال سے تمہیں اس آیت میں روکا گیا ہے ان کا ارتکاب نہ کرو اور اللہ کے عقاب سے ڈرتے رہو اور اگر کسی سے کوئی ایسی غلطی ہوجاتی ہے اور پھر اپنے گناہ پر نادم ہوتا ہے، اور اس سے تائب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ جن برے اعمال سے اس آیت کریمہ میں منع کیا گیا ہے، ان کی ممانعت نبی کریم (ﷺ) کی متعدد احادیث میں بھی آئی ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :” مسلمانو ! تم بدظنی سے پرہیز کرو، اس لئے کہ بدظنی سب سے جھوٹی بات ہے، اور تجسس نہ کرو اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو، اور آپس میں ایک دوسرے سے حسد، دشمنی اور بغض نہ رکھو اور کسی کے پیچھے نہ لگو اور اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔ “ اور ابوداؤد نے معاویہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :” اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی کرید میں لگے رہو گے، تو انہیں خراب کر دو گے۔ “ اور ترمذی نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے خطبہ دیا اور آواز اتنی اونچی کی کہ عورتوں کو ان کے گھروں میں سنایا، فرمایا :” اے وہ لوگو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو، حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں پیوست نہیں ہوا ہے، مسلمانوں کی چھپی باتوں کی کرید میں نہ لگو، جو شخص مسلمانوں کی چھپی باتوں کی کرید میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی چھپی باتوں کو کریدتا ہے، یہاں تک کہ اسے رسوا کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہو۔ “