يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو! (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق [١٤] نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے [١٥] کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی [١٦] نہ کرو۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام [١٧] رکھو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا [١٨] بہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔
(9) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض ان امور سے منع فرمایا ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف و نزاع اور جنگ و قتال کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہاری ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے کہ حقیر سمجھ کر جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ اللہ کے نزدیک مذاق اڑانے والی جماعت سے بہتر ہو، مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ دونوں فریقوں میں سے ایک کے اچھا ہونے کا تعلق اس کی صورت و شکل اور دیگر ظاہری اسباب سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دلوں میں پوشیدہ باتوں سے ہے۔ اس لئے کوئی کسی کو حقیر نہ جانے، شاید کہ جسے حقیر جانا جا رہا ہے، وہ حقیر جاننے والی جماعت سے اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہو۔ اور مردوں اور عورتوں کا اس بارے میں ایک ہی حکم ہے، یعنی کسی مومنہ کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنی مومنہ بہن کا مذاق اڑائے، ممکن ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ اللہ کے نزدیک مذاق اڑانے والی سی بہتر ہو۔ ابن عباس (رض) نے سورۃ الکہف کی آیت (49) يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَاĬ ” ہائے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ بغیر شمار کئے نہیں چھوڑا ہے“ کی تفسیر میں کہا ہے کہ گناہ صغیرہ یہ ہے کہ کسی مومن کا مذاق اڑایا جائے اور کبیرہ یہ ہے کہ اس پر قہقہہ لگایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی مسلمان مرد یا عورت اپنے مسلمان بھائی یا بہن میں عیب لگائے اور چونکہ ایمانی رشتہ سب سے قوی رشتہ ہوتا ہے، اس لئے مسلمان آپس میں ایک جان ہوتے ہیں، تو کسی مسلمان کی عیب جوئی گویا خود اپنی عیب جوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی کسی کو ایسے نام سے پکارے جسے وہ برا سمجھتا ہے، اس لئے کہ یہ بھی مسلمانوں میں عداوت و اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ بدترین بات یہ ہے کہ مسلمان کو برے نام سے پکارا جائے، جیسے فاسق، کافر، زانی یا فاسد کہا جائے اور کی تفسیر میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی مسلمان کو برے نام سے پکارنے والا فاسق قرار پاتا ہے، جو (اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد) اس کے لئے بڑا ہی برا نام ہے، جسے اس نے برے کرتوت کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرمایا کہ جو شخص اپنے مومن بھائی کا مذاق اڑانے، اس کی عیب جوئی کرنے، اور اسے برے ناموں کے ذریعہ پکارنے سے باز نہیں آئے گا اور ان گناہوں سےتائب نہیں ہوگا وہ درحقیقت اپنے حق میں بڑا ظالم ہوگا کہ وہ ان گناہوں کے سبب اللہ کے عقاب کا مستحق ٹھہرے گا۔