إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
بلاشبہ جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں [١٠] پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اب جو شخص اس عہد کو توڑے تو اسے توڑنے کا وبال اسی پر ہوگا اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو عنقریب اللہ اسے بڑا اجر عطا کرے گا۔
(7) یہاں بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے یعنی وہ بیعت جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ آپ کے ہاتھوں پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے“ صحابہ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر ایک درخت کے نیچے نبی کریم (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ وہ اہل مکہ سے جنگ کریں گے اور کسی بھی حال میں میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اس بیعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمان یہ بیعت رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ پر کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ معاہدہ اور بیعت، اللہ کے ساتھ ہے، بیعت کرتے وقت اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا، انہوں نے جنت کے بدلے اللہ سے اپنی جانوں کا سودا کرلیا ہے، اس لئے اب جو کوئی نقض عہد کرے گا اور کافروں سے جنگ نہیں کرے گا، تو اس کا نقصان اسے ہی پہنچے گا، یعنی اس کا وبال اور اس کی سزا سے مل کر رہے گی، اور جو اللہ سے کئے گئے معاہدہ کی پابندی کرے گا اور رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مل کر کافروں سے جنگ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کواجر عظیم عطا فرمائے گا، یعنی اسے جنت میں داخل کر دے گا۔