هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم
سنو! تم وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے [٤٣]، پھر تم میں سے کوئی بخل کرنے لگتا ہے حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بے نیاز ہے اور تم ہی اس کے محتاج ہو اور اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تمہاری جگہ (دوسرے لوگ) لے آئے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے۔
(20) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر بھلائی اور خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جاتی ہے، تو ان میں سے بعض لوگ بخیلی کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس بخل کا نقصان انہیں ہی پہنچتا ہے، یعنی اجر عظیم سے محروم ہوجاتے ہیں، اللہ کو بندوں کے مال کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا وہی مالک ہے، محتاج تو بندے ہیں کہ کوئی چیز ان کے اختیار میں نہیں ہے، ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محتاجیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اللہ دیتا ہے تو بندے پاتے ہیں۔ اس نے تو بندوں کو مال خرچ کرنے کی نصیحت خود ان کی بھلائی کے لئے کی ہے تاکہ ان کا نفس حرص و ہوس سے پاک ہو، اور ان کا مال بھی پاک رہے اور جہاد کی تیاری کر کے اپنے اورا للہ او رسول کے دشمنوں کو مار بھگائیں اور اپنی عزت اور جان و مال کی حفاظت کریں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اگر تم ایمان اور تقویٰ کی راہ سے پھر جاؤ گے، تو وہ تمہارے بجائے ایک دوسری قوم کو لے آئے گا جو تم سے زیادہ اللہ کی مطیع و فرمانبردار ہوگی، اس کی راہ میں، خرچ کرنے سے تمہاری طرح بخل نہیں کرے گی اور اس کے تمام اوامرونواہی کو پورے طور پر بجا لائے گی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ سے مقصود صحابہ کرام کو خیر کی رغبت دلانا تھا، تاکہ وہ نعمت اسلام کی قدر کریں، اور اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیں اور تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام اس کسوٹی پر پورے اترے، انہوں نے اسلام کی آبیاری کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا اور اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وباللہ التوفیق