وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ
اور اگر ہم چاہیں تو ایسے لوگ آپ کو دکھادیں اور آپ انہیں ان کے چہروں سے خوب پہچان لیں گے۔ تاہم آپ انہیں ان کے انداز کلام سے پہچان ہی لیں گے [٣٤] اور اللہ تم سب کے اعمال خوب جانتا ہے۔
آیت (30) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر ہم چاہیں تو آپ کو ایک ایک منافق کا پتہ دے دیں اور آپ ہر ایک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اور ان کی نشانیوں سے انہیں پہچان لیں، لیکن اللہ نے اپنی دانستہ حکمت و مصلحت کے پیش نظر ان میں سے بہتوں پر پرد ڈال دیا مگر پردہ پوشی کے باوجود وہ اپنے طرز کلام سے پہچانے جاتے ہیں، جب دیکھئے وہ آپ اور مسلمانوں کی شان گھٹانے والی بات کرتے رہتے ہیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی منافق آپ کے سامنے بات کرتا تو آپ اس کے طرز کلام سے اسے فوراً پہچان جاتے تھے۔ آیت (30) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تم سب کے اعمال سے خوب باخبر ہے، اور ہر ایک کو روز قیامت اس کے اعمال کا بدلہ ضرور چکائے گا۔ اس لئے تم میں سے ہر شخص اپنا محاسبہ کرتا رہے اور اس دن کی رسوائی سے پناہ مانگتا رہے۔