ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ
یہ اس لئے کہ کافروں نے تو باطل کی پیروی کی اور ایمان والوں نے اس حق کی پیروی کی جو ان کے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوا) اسی طرح اللہ لوگوں سے ان کی ٹھیک ٹھیک [٤] حالت بیان کردیتا ہے۔
آیت (3) میں مذکور بالا فیصلے کی علت بیان کی گئی ہے کہ کافروں کے اعمال اس لئے ضائع ہوئے کہ انہوں نے باطل یعنی شرک باللہ اور دیگر معاصی کا ارتکاب کیا اور مومنوں کے گناہ اس لئے معاف کردیئے گئے اور خیر کی راہ کی طرف ان کی اس لئے رہنمائی کی گئی کہ وہ اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لائے، شرک سے دور رہے اور اچھے اعمال کئے دونوں جماعتوں کے حالات امتوں اور قوموں کے لئے ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی جو کوئی بھی کافر ہوگا اس کے سارے اعمال رائیگاں ہوجائیں گے، قیامت کے دن اسے ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اور جو مومن ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔