قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
آپ ان سے کہئے کہ ’’میں کوئی نرالا رسول [١٢] نہیں ہوں، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک [١٣] کیا جائے گا اور تم سے کیا ؟ میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو محض ایک واضح طور پر ڈرانے والا ہوں‘‘
(7) مشرکین مکہ دن رات قرآن کریم اور نبی کریم (ﷺ) کی عیب جوئی میں لگے رہتے تھے۔ ان کی مجلس کا اہم ترین موضوع یہ ہوتا تھا کہ محمد اللہ کا پیغامبر کیسے ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو ان سے یہ کہنے کا حکم دیا کہ : میں اللہ کا کوئی پہلا نبی نہیں ہوں کہ تمہیں بڑی حیرت ہو رہی ہے، مجھ سے پہلے بہت سے انبیاء و رسل آئے جنہوں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دیا اور میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا ہوں کہ آئندہ دنیاوی زندگی میں میرے اور تمھارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، مفسرین کے نزدیک ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾ کی یہی تفسیر زیادہ صحیح ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اس سے مراد آخرت کا انجام ہے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس کے سوا دوسری تفسیر جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم (ﷺ) کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ آخرت میں آپ کا مقام جنت ہوگا۔ البتہ دنیا کی زندگی میں آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں آپ کو کن حالات سے گذرنا ہوگا اور مشرکین قریش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا کرے گا، ایمان لائیں گے، یا کفر کی راہ اختیار کریں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے۔ تیسری بات اللہ نے اس آیت میں اپنے رسول کی زبانی یہ کہی کہ میں تو صرف وحی الٰہی کی اتباع کرتا ہوں، اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کرتا ہوں، مفسرین لکھتے ہیں کہ ﴿إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ﴾ میں مشرکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جو نبی کریم (ﷺ) سے ایسی نشانیوں کا مطالبہ کرتے تھے جن کے لانے کی وہ قدرت نہیں رکھتے تھے۔ چوتھی بات یہ کہی گئی ہے کہ میں اللہ کی جانب سے لوگوں کو صاف صاف ڈرانے والا ہوں، تو جو شخص میری بات پر دھیان دے گا اور شرک و معاصی سے پرہیز کرے گا، وہ عذاب جہنم سے نجات پائے گا اور جو ٹھکرا دے گا، اس کا معاملہ میرے رب کے حوالے ہے، چاہے گا تو عذاب دے گا اور چاہے گا تو اسے راہ ہدایت پر ڈال دے گا اور اس کے حال پر رحم کرے گا۔