وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اور وہ (عیسیٰ) تو قیامت کی ایک علامت [٦٠] ہے۔ لہٰذا اس (کے آنے) میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
(27) اس آیت کریمہ کا مفہوم بیان کرنے میں علمائے تفسیر کے کئی اقوال ہیں : مجاہد ضحاک، سدی اور قتادہ کا خیال ہے کہ یہاں عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں، یعنی خروج دجال کی طرح ان کا خروج بھی قیامت کی نشانی ہے۔ حسن بصری اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ قرآن کریم مراد ہے، یعنی نزول قرآن قرب قیامت کی نشانی ہے اور اس میں اس کے احوال و کوائف بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا کیا جانا بعث بعد الموت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے اور بعض نے نبی کریم (ﷺ) کو مراد لیا ہے، یعنی آپ کی بعثت قرب قیامت کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (ﷺ) کی زبانی فرمایا کہ لوگو ! قیامت کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ نہ کرو، اس کا آنا یقینی ہے، اور اللہ کی طرف سے میں تمہیں جن باتوں کا حکم دیتا ہوں ان پر عمل کرو، اللہ کو ایک جانو، اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس نے جو احکام فرض کئے ہیں بجا لاؤ، یہی سیدھی راہ ہے۔