وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
اور جب (عیسیٰ) ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم نے اس پر غل [٥٥] مچا دیا۔
(24) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت کریمہ ابن الزبعری کے نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک مجادلہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب سورۃ الانبیاء کی آیت (98)﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ ” تم اور تمہارے معبود ان باطل جہنم کا ایندھن بنو گے“ نازل ہوئی، تو ابن الزبعری نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا کہ رب کعبہ کی قسم ! آج میں تم پر غالب آگیا، کیا نصاریٰ عیسیٰ کی یہود عزیز کی اور بنو ملیح فرشتوں کی پرستش نہیں کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ جہنم میں جائیں گے تو ہم بھی اپنے معبودوں کے ساتھ جہنم میں جانے کے لئے تیار ہیں۔ مشرکین اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور شور مچانے لگے تو سورۃ الانبیا کی آیت (101) ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾ ” جن کے لئے ہماری جانب سےپہلے سےہی جنت کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے“ نازل ہوئی اور اس سورت کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ابن الزبعری نے عیسیٰ کو بتوں کے مشابہ قرار دیا تو کفار قریش بہت خوش ہوئے اور مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ، یعنی جب عیسیٰ کی عبادت کی جاسکتی ہے، تو فرشتے جن کی ہم عبادت کرتے ہیں بدرجہ اولیٰ عبادت کئے جانے کے حقدار ہیں۔