سورة فصلت - آیت 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھائیں تو کہنے لگتا ہے کہ ’’میں اسی کا مستحق [٦٦] تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ کبھی قیامت بھی آئے گی اور اگر مجھے اپنے پروردگار کے پاس جانا ہی پڑا تو وہاں بھی میرے [٦٧] لئے بھلائی ہی ہوگی‘‘ ہم ایسے کافروں کو ضرور بتادیں گے کہ وہ کیا کرتے تھے اور انہیں گندے [٦٨] عذاب کا مزا چکھائیں گے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(33) اور جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کردیتا ہے، محتاجی کے بعد اسے دولت عطا کردیتا ہے، تو اپنا ماضی بھول جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے فخر کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دولت تو میں نے اپنی ذہانت اور محنت سے حاصل کی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور جب اسے قیامت کی یاد دلائی جاتی ہے تاکہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے لوگوں پر صدقہ و احسان کرے تو کہنے لگتا ہے کہ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں، انسان کی پیدائش نیچر کا نتیجہ ہے، آدمی مر کر گل سڑ جائے گا اور دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور قیامت نہیں آئے گی اور اگر مان بھی لیں کہ ہم دوبارہ اپنے رب کے پاس جائیں گے تو وہاں بھی ہمیں جنت ملے گی، کیونکہ ہم اس کی نگاہ میں اچھے ہیں، جبھی تو اس نے ہمیں اس دنیا میں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان منکرین قیامت احسان فراموشوں کا انجام بتایا کہ وہ روز قیامت ان کے برے اعمال ان کے سامنے رکھ دے گا، تاکہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کی جھوٹی تمنائیں خاک میں مل جائیں، پھر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا جس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔