وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور (ہم نے انہیں کہا کہ) اپنے ہاتھ میں تنکوں [٥١] کا ایک مٹھا لے، اس سے مار لو اور قسم نہ توڑ۔ ہم نے ایوب کو صابر پایا، بہترین بندے جو ہر وقت (اپنے پروردگار کی طرف) رجوع کرنے والے ہیں۔
آیت (44) کے آخر میں اللہ نے ایوب (علیہ السلام) کے صبر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے رب کے بڑے ہی اچھے بندے تھے اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے ایوب (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متعلق مندرجہ ذیل چند ملاحظات مدنظر رکھنا مفید رہے گا۔ 1۔ آپ کا نام ایوب بن عیصو بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل علیہم السلام تھا، آپ اللہ کے نبی اور مالدار آدمی تھے اور امرائے قوم میں سے تھے، ان کا علاقہ بحرمیت کے جنوب مشرق میں بلاد ادوم اور صحرائے عرب کے درمیان واقع تھا وہاں کی زمین بڑی زرخیز تھی اور بہت سے پانی کے چشمے پائے جاتے تھے۔ 2۔ ان کی آزمائش سے متعلق بہت سے مفسرین نے جھوٹے واقعات اور اسرائیلی قصے بیان کئے ہیں۔ قرآن کریم نے اس آزمائش کا اجمال کے ساتھ ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اپنی جان، مال اور اولاد کے سلسلے میں جس عظیم مصیبت میں مبتلا ہوئے تھے اس پر ایسا صبر کیا کہ وہ ضرب المثل بن گیا اور اللہ نے انہیں اس کا کئی گنا اچھا بدلہ دیا۔ 3۔ ایوب (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ انتہائے ادب کی وجہ سے اپنی تکلیف و بیماری کی نسبت اللہ کے بجائے شیطان کی طرف کی ہے۔ 4۔ ان کی بیوی ان کی صحت و عافیت کی شدید خواہش کی وجہ سے ہر دم دوا کی تلاش میں رہتی تھیں۔ ایک دن شیطان نے ان کی شفا کے لئے انہیں کسی شرکیہ عمل کی دعوت دی، انہوں نے آ کر اپنے شوہر کو خبر دی، تو ایوب (علیہ السلام) نے کہا کہ وہ شیطان تھا اور ناراض ہو کر قسم کھائی کہ اللہ نے انہیں شفا دے دی تو وہ اپنی بیوی کو سو کوڑے ماریں گے کہ وہ شیطان کی باتوں میں کیوں آگئیں۔ ان کی بیوی معذور تھی اس لئے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے بات کرنے والا شیطان تھا اور ان کی شریعت میں کفارہ نہیں تھا، ورنہ ایوب (علیہ السلام) کو کفارہ دے دیتے اور قسم پوری کرنے کے لئے بیوی کو مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ایوب کو فتویٰ دیا کہ وہ اپنی نیک بیوی کے ساتھ معذور آدمی کا برتاؤ کریں جو سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ وباللہ التوفیق۔