وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
اور ان کے سردار چل کھڑے ہوئے (اور کہنے لگے کہ) ’’چلو اور اپنے خداؤں کی عبادت [٥] پر ڈٹے رہو۔ یہ بات تو کسی اور ہی ارادہ [٦] سے کہی جارہی ہے‘‘
(3) آیات (1) سے (8) تک کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں لکھا جا چکا ہے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے کفار قریش سے کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کا مطالبہ کیا تو وہ ابوطالب کے پاس سے دامن جھاڑ کر اٹھ گئے اور واپس جاتے ہوئے ایک دوسرے کو بت پرستی پر جمے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے کہ لوگو ! اپنے آباء و اجداد کے طریقے پر قائم رہو اور محمد ہمارے اور ہمارے معبودوں کے بارے میں جو چاہے کہتا رہے ہمیں ان باتوں کی پرواہ نہیں کرنی ہے اور اپنے معبودوں کی عبادت نہیں چھوڑنی ہے محمد کی ساری تدبیروں اور کوششوں کا مقصد یہی تو ہے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں جس توحید کی بات کی جا رہی ہے