سورة آل عمران - آیت 103

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اللہ کی [٩٣] رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم [٩٤] ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

73۔ حافط ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے، آیت کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس آیت میں اوس و خزرج کے ماضی کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے درمیان کیسی دشمنی تھی، لیکن اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اللہ کے لیے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ اللہ کی رسی سے مراد یا تو اللہ سے کیا گیا عہد و پیمان ہے، یا قرآن کریم، امام مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : آگاہ رہو، میں تمہارے پاس دو بہت ہی بھاری اور عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے، جو اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر رہے گا، اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہ ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد کی نصیحت کی گئی ہے، اور ہر قسم کے افتراق و اختلاف سے ڈرایا گیا ہے، اور اتفاق کی بنیاد قرآن کریم کو بتایا گیا ہے۔ اور جیسا کہ معلوم ہے کہ سنت قرآن سے جدا نہیں ہوسکتی، اور قرآن بغیر سنت کے نہیں سمجھا جاسکتا، اس لیے مسلمانوں کے درمیان حقیقیس اتفاق و اتحاد صرف قرآن و سنت پر عمل کر کے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس معنی کی حدیثیں متعدد ہیں جن میں امت کو افتراق سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں سکھایا گیا ہے کہ امت مسلمہ صرف قرآن و سنت کے ذریعہ ہی متحد ہوسکتی ہے۔ اور یہ کہ امت (73) فرقوں میں صرف اس وجہ سے بٹ گئی کہ اس نے ان دونوں بنیادوں کو پس پشت ڈال دیا۔ جس فرقہ کو (ناجیہ) کہا گیا ہے، اس کی صفت خود اللہ کے رسول نے بتا دی ہے کہ جو میری اور میرے صحابہ کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس لیے اگر کسی بھی زمانے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوگا تو صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر، کسی دوسری بنیاد پر امت مسلمہ کی جماعتوں میں حقیقی اتحاد وجود میں نہیں آسکتا۔