سورة آل عمران - آیت 93

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بنی اسرائیل کے لیے کھانے پینے کی سب چیزیں حلال تھیں مگر وہ چیزیں جنہیں تورات کے نزول سے پیشتر اسرائیل (یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ آپ ان یہود سے کہئے کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو تورات لاؤ اور اس میں سے [٨٢] وہ عبارت پڑھو

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

68۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے رد میں اور ان کی تکذیب کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت 160 تا 161 میں اور سورۃ انعام کی آیت 146 میں بیان کیا کہ ہم نے ان کے ظلم و طغیان کی وجہ سے ان پر کئی حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا، تو اس سے وہ بہت ہی زیادہ چیں بجبیں ہوئے، اور اللہ نے جو انہیں ظلم و طغیان کے ساتھ متہہم کیا تھا، اس کی تکذیب کی، اور کہا کہ یہ غلط ہے کہ یہ چیزیں سب سے پہلے ہم پر حرام کی گئی تھیں، یہ تو نوح، ابراہیم، اور اولادِ اسرائیل پر قدیم زمانے سے حرام تھیں، تو ہمارے لیے بھی ان کی حرمت باقی رہی، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تکذیب کی کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر کوئی بھی کھانا حرام نہیں کیا تھا، البتہ اسرائیل یعنی یعقوب نے خود ہی بطور نذر بعض کھانوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے فرمایا کہ اگر انہیں اپنی افترا پردازی پر اصرار ہے تو آپ ان سے کہیے کہ تم لوگ تورات کھول کر دیکھو، تمہارے دعوے کی صداقت کی قلعی کھل جائے گی، یعنی تورات میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ یہ چیزیں قدیم زمانے سے حرام رہی ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا مجھے بتائیے کہ یعقوب نے اپنے لیے کس چیز کو حرام کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ بادیہ میں رہتے تھے، انہیں عرق النساء کی بیماری ہوگئی، انہیں بطور علاج یہی سمجھ میں آیا کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیں، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا (یعنی دونوں چیزوں کا کھانا پینا بند کردیا) یہودیوں نے کہا کہ آپ نے سچ کہا، اس حدیث کو احمد اور نسائی نے بھی روایت کی ہے۔ امام احمد کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دونوں چیزوں کو بطور نذر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں، اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ تحریم قدیم ہے، تو وہ تورات سے یہ بات ثابت کر دکھائیں، اس میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صداقت اور ان کے جھوٹے ہونے کی بہت بڑی دلیل موجود ہے، اس لیے کہ انہوں نے تورات لانے کی جسارت نہیں کی۔ اور آیت (95) میں فرمایا کہ ثابت ہوگیا کہ اللہ سچا ہے، اور یہود جھوٹے ہیں، اس لیے اب انہیں یہودیت سے اعلان براءت کر کے ملت ابراہیم یعنی دین اسلام کو اختیار کرلینا چاہیے