سورة آل عمران - آیت 91

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جو لوگ کافر ہوئے پھر کفر ہی کی حالت میں مرگئے اگر وہ زمین بھر بھی سونا دے کر خود چھوٹ جانا چاہیں [٨٠] تو ان سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جنہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور ان کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور حالت کفر میں ہی مر گئے تو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ان کا انجام بتایا ہے، کہ اس دن کسی کے پاس کوئی مال نہ ہوگا، لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی کے پاس مال و دولت ہو، تو چاہے وہ پوری زمین بھر کے بھی سونا دے کر اپنی جان جہنم کی آگ سے چھڑانا چاہے گا تو بچ نہ سکے گا، یعنی کوئی بھی چیز اسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی۔ مسند احمد میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا، قیامت کے دن ایک جہنمی سے پوچھا جائے گا کہ اگر تم زمین کی ہر چیز کے مالک ہوتے تو کیا اسے دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ؟ وہ کہے گا ہاں، تو اللہ کہے گا کہ میں تو تم سے اس سے آسان چیز چاہی تھی، میں نے تم سے (جب تم اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھے) یہ عہد لیا تھا کہ تم میرے ساتھ شرک نہ کرو گے تو تم نے انکار کردیا۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سے عبداللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا گیا، جو مہمانون کو کھانا کھلایا کرتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا، اور مسکینوں کو کھانا دیتا تھا، کہ یہ نیکیاں اس کے کام آئیں گی؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ نہیں، اس لیے کہ اس نے پوری زندگی میں ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کردینا۔