سورة فاطر - آیت 37

وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہاں وہ چیخ چیخ کر کہیں گے : ہمارے پروردگار! ہمیں (اس سے) نکال کہ ہم نیک عمل کریں۔ ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ جواب میں فرمائے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں [٤١] دی تھی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا ؟ حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا (بھی) آیا تھا اب (عذاب کا) مزا چکھو یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

آیت 37 میں جہنمیوں کے درد و الم اور شدت عذاب کا حال یوں بیان کیا گیا ہے کہ جب کچھ بھی نہ بن پڑے گا تو دھاڑیں مار مار کر روئیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال کردنیا میں دوبارہ پہنچا دے، تاکہ عمل صالح کر کے اپنی عاقبت سدھار لیں، تو ان سے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم لوگ اب جہنم کی آگ سے نکل کر دوبارہ دنیا میں جانا چاہتے ہو، تاکہ عمل صالح کرو، کیا ہم نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی کہ تم میں سے جو چاہتا غور و فکر سے کام لیتا اور راہ راست کو اختیار کرتا؟ کیا تمہارے پاس ہمارے پیغامبر نہیں آئے تھے؟ اور انہوں نے تمہیں ہمارے عذاب سے ڈرایا نہیں تھا، لیکن تم لوگوں نے شرک اور گناہوں پر اصرار کیا، تو اب چکھو اپنے کئے کا انجام، آج ظالموں کا کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی آدمی ایمان اور عمل صالح کی زندگی نہیں گذارتا ہے تو قیامت کے دن لمبی عمر اس کے خلاف حجت بن جائے گی، جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت کردی گئی ہے۔