سورة آل عمران - آیت 77

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لیکن جو لوگ اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے نہ تو کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور انہیں دکھ دینے والا عذاب [٦٧] ہوگا

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

58۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے جو دنیاوی حقیر فائدوں کے حصول کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس و لحاط نہیں رکھتے، کہ انہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی، نہ اللہ تعالیٰ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، یعنی ان سے شدید ناراض ہوگا، اور نہ گناہوں سے انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ امام بخاری نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی بازار میں ایک سامان لے آیا، اور قسم کھائی کہ اس نے اتنی قیمت میں خریدا ہے، اس کا مقصد ایک مسلمان کو پھنسانا تھا تاکہ وہ سامان خرید لے، تو یہ آیت اتری۔ اشعث بن قیس کندی کا قول ہے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی، میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین تھی۔ یہودی نے انکار کردیا تو میں نے اسے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سامنے پیش کردیا۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ میں نے کہا، نہیں، تو آپ نے یہودی سے کہا کہ تم قسم کھاؤ، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! تب تو یہ قسم کھا لے گا، اور میرا مال ہڑپ جائے گا، تو یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد)