سورة آل عمران - آیت 75

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اہل کتاب میں کچھ تو ایسے ہیں کہ اگر آپ ان پر اعتماد کرتے ہوئے ایک خزانہ بھر مال دے دیں تو وہ آپ کو واپس کردیں اور کچھ ایسے ہیں کہ اگر آپ انہیں ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو وہ ادا نہ کریں الا یہ کہ تم ہر وقت ان کے سر پر سوار رہو۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ (ان کا عقیدہ یہ بن گیا ہے) کہ ان پڑھوں (غیر یہود) کے بارے میں ان پر کچھ گرفت نہ ہوگی۔ یہ لوگ دیدہ دانستہ [٦٦] اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر رہے ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

57۔ گذشتہ آیتوں میں یہودیوں کی دینی خیانت کا ذکر تھا، اب ان کی مالی خیانت کا ذکر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر مال کثیر کے سلسلہ میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ایک دینار کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ عدی بن حاتم کا قول ہے کہ آیت میں امانت دار اہل کتاب سے مراد نصاری اور خیانت کرنے والوں سے مراد یہود ہیں، یہ خائن یہود لوگوں کو باور کراتے تھے کہ امیین یعنی عربوں کا مال کسی طرح بھی لینا جائز ہے، کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان تھا۔ اللہ نے کبھی بھی کسی کا مال دوسرے کے لیے غیر شرعی طور پر لینا جائز نہیں قرار دیا، اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ جس نے کوئی مال حاصل کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا (، مسند احمد)