سورة سبأ - آیت 43

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں :’’یہ آدمی تو ایسا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے ان (معبودوں) سے روک دے جنہیں تمہارے آباء و اجداد [٦٦] پوجا کرتے تھے۔‘‘ نیز وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ قرآن تو جھوٹ ہی گھڑا ہوا ہے۔‘‘ اور ان کافروں کے پاس جب حق آگیا تو کہنے لگے کہ : ’’یہ تو صریح جادو [٦٧] ہے‘‘

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

34 -دعوت اسلامیہ کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے مشرکین مکہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے، نبی کریم (ﷺ) پر جب قرآن کریم نازل ہوتا اور آپ تازہ بہ تازہ اہل قریش کے سامنے اس کی تلاوت کرتے تاکہ ان کھلی آیتوں کو سن کر اللہ پر ایمان لے آئیں، تو ان پر اس کا الٹا اثر پڑتا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ یہ آدمی تمہیں تمہارے آباء و اجداد کے دین سے روکنا چاہتا ہے، یعنی تم لوگ اپنے باپ دادوں کے دین پر ہی ڈٹے رہو، اس لئے کہ یہ دین صحیح ہے اور محمد جس دین کی طرف تمہیں بلا رہا ہے وہ باطل ہے اور قرآن کریم کے بارے میں کہتے کہ یہ ایک جھوٹا کلام ہے جسے اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور جب نبی کریم (ﷺ) کی دعوت الی التوحید سے متعلق مؤثر بات سنتے اور دیکھتے کہ لوگ اثر قبول کر رہے ہیں اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے جا رہے ہیں، تو کہتے کہ لوگو ! اس کی بات کا اثر نہ لو، یہ تو کھلم کھلا جادو ہے اور محمد بہت بڑا جادو گر ہے۔