قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
آپ ان سے کہئے کہ :’’میرا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے رزق فراخ کردیتا [٥٩] ہے اور جس کے لئے چاہے کم کردیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا [٦٠] ہے اور وہی سب سے بہتر رازق [٦١] ہے‘‘
31 -آیت 36 میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے اسی کی یہاں دوبارہ تاکید و توثیق کی گئی ہے کہ کسی کی روزی میں تنگی نہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کا مبغوض بندہ ہے اور نہ روزی میں وسعت اللہ کا محبوب بندہ ہونے کی دلیل ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے بندے اس کی راہ میں اور مباح کاموں میں چاہے جتنا بھی خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ دنیا میں انہیں اتنا پھر دے دے گا اور آخرت میں اس کا اچھا اجر عطا کرے گا۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے حدیث قدسی روایت کی ہے، اللہ کہتا ہے :” اے ابن آدم ! خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا“ اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) ہی سے ایک دوسری حدیث روایت کی ہے کہ ” ہر دن صبح کو دو فرشتے اترتے ہیں، ایک کہتا ہے، اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو پھر دے دے اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ ! بخیل کا مال ضائع کر دے۔ “