إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
ہم نے اپنی امانت [١١٠] آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقیناً وہ بڑا ظالم [١١١] اور جاہل ہے۔
55 -اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (دین متین اور اس کے احکام) کی عظمت و اہمیت بیان کی ہے کہ اس عظیم امانت کو اس نے آسمانوں اور زمین پر پیش کیا کہ وہ اس بارگراں کو قبول کریں انہوں نے اللہ سے پوچھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر تم اس پر عمل پیرا ہو گے تو اچھا بدلہ دوں گا اور اگر برا عمل کرو گے تو تمہیں عذاب دوں گا انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس امانت کو قبول کرنے کی انہیں پیشکش کی انہوں نے اسے قبول کرلیا، اور اپنے اوپر بڑا ظلم کیا کہ ایسی خطرناک ذمہ داری کو قبول کرلی اور بڑے نادان تھے کہ وہ اس کے انجام سے بے خبر تھے۔ علماء کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں میں پہلے روح ڈالی، پھر ان سے سوال کیا۔ قفال اور کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ دین متین کے احکام کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ اگر ان عظیم اجسام والی مخلوقات کو بھی اللہ تعالیٰ احکام شرعیہ کا مکلف بناتا تو وہ اس بارگراں کو اٹھانے سے معذرت کردیتے امام ابن حزم اپنی کتاب ” الفصل“ میں لکھتے ہیں کہ کوئی آدمی نہیں جانتا کہ اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کرنے کی کیا کفیت تھی لیکن ہمارا یقین ہے کہ اللہ نے ان میں ایسی قوت پیدا کردی جس کے ذریعہ انہوں نے امانت کی اہمیت کا ادراک کیا۔