وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کر دے تو ان کے لئے اپنے معاملہ میں کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی [٥٥] کرے تو وہ یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا۔
(29) اس آیت کریمہ سے زینب بنت حجش (رسول اکرم (ﷺ) کی پھوپھی زاد) سے زید بن حارثہ (رض) کی شادی سے متعلق تفصیلات کی ابتدا ہو رہی ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دینے کی قرآن کریم میں ممانعت کردی، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (4) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾ اور آیت (5) میں فرمایا ہے : ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ﴾ کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹوں کی حیثیت نہیں دے دی ہے اور انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، تو اس ضمن میں یہ احکامات بھی صادر ہوئے کہ منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوگا اور اس کی مطلقہ بیوی اس کے منہ بولے باپ کیلئے حرام نہیں ہوگی، لیکن عملی طور پر ان احکامات کو قبول کرنا ان لوگوں کے لئے آسان نہیں تھا جو زمانہ جاہلیت سے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دیتے تھے۔ ضرورت تھی کہ کسی عملی مثال کے ذریعہ جاہلیت کی اس قبیح عادت پر کاری ضرب لگائی جاتی۔ چنانچہ نبی کریم (ﷺ) نے زینب بنت حجش کو زید بن حارثہ سے شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے معذرت کردی کہ قریش کی ایک خاندانی عورت ایک آزاد کردہ غلام سے شادی نہیں کرسکتی، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جیسا کہ ابن عباس (رض)، قتادہ اور مجاہد وغیرہ ہم نے اس آیت کا سبب نزول بیان کیا ہے، جب زینب کو اس کی خبر ہوئی تو فوراً شادی کی منظوری دے دی اور شادی ہوگئی لیکن زینب ذہنی طور پر اس شادی سے مطمئن نہیں تھیں، زید نے جب دیکھا کہ اس شادی کا کوئی فائدہ نہیں تو رسول اللہ (ﷺ) سے زینب کو طلاق دے دینے کی اجازت مانگی، لیکن رسول اللہ (ﷺ) انہیں روکتے رہے حالانکہ آپ (ﷺ) یہ بات جانتے تھے کہ زید کے طلاق دے دینے کے بعد، زینب سے خود شادی کرلیں گے، تاکہ زمانہ جاہلیت کی قبیح عادت پر کاری ضرب لگے، لیکن پھر بھی زید کو طلاق دینے سے منع کرتے تھے، جن کا ذکر آیت (37) میں آیا ہے۔ آیت (36) کا مفہوم یہ ہے کہ کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم صادر ہوجائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لئے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لئے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نافرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے، یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا حکم صادر ہوجائے، تو کسی کے لئے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (65) میں فرمایا ہے : ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ ” آپ کے رب کی قسم ! وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں۔ “