وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں قرار [٤٧] پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت [٤٨] کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش [٤٩] نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو ' اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہل بیت [٥٠] (نبی) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی [٥١] کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے
آیت (33) میں اللہ نے فرمایا : اور اپنے گھروں میں رہا کرو، صرف ضرورت سے ہی نکلا کرو اور جب نکلو تو ایام جاہلیت کی عورتوں کی طرح بن ٹھن کر بے پردہ نہ نکلا کرو۔ مفسرین نے ” تبرج“ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ عورت مٹکتی ہوئی اور زینت کا اظہار کرتی چلے جس سے مردوں کی جنسی خواہش بھڑکے، ایسے باریک اور عریاں لباس پہنے جس سے اس کے جسم کا پردہ نہ ہو، اور کوشش کرے کہ اس کی گردن، ہار اور بالیاں وغیرہ لوگوں کو دکھائی دیں۔ نیز فرمایا کہ تم سب نماز قائم کرو، یعنی تمام شروط، ارکان اور واجبات کا لحاظ رکھتے ہوئے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ، صحیح اوقات میں ساری نمازیں ادا کرو اور اگر اللہ مال دے تو زکاۃ دو اور اللہ و رسول (ﷺ) کے تمام اوامرونواہی کی پابندی کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا کہ تمہیں جن اچھی باتوں کی نصیحت کی گئی ہے اور جن برائیوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایسے گناہ اور گندگی سے دور رکھا جائے جو نبی کے گھرانے کے شایان شان نہیں ہے اور تمہیں ہر اس قول و فعل سے مکمل طور پر پاک کردیا جائے جس سے روح کی بالیدگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی ازواج مطہرات ” اہل بیت“ میں شامل ہیں، صحیح مسلم میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) ایک دن صبح کے وقت کالے بال کی بنی ایک چادر اوڑھے نکلے حسن آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر حسین آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر فاطمہ آئیں تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر علی آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر آپ نے فرمایا کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں مکمل طور پر پاک کرنا چاہتا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چاروں افراد نبی کریم (ﷺ) کے گھرانے میں شامل ہیں۔ لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ” اہل بیت“ کا اطلاق صرف انہی چاروں پر ہوگا۔ اسی لئے ارجح یہی ہے کہ نبی کریم کی ازواج مطہرات ” اہل بیت“ میں قرآن کی صریح نص کے ذریعہ داخل ہیں اور فاطمہ علی اور حسن و حسین صحیح حدیث کے مطابق حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نص صریح ہے کہ آپ (ﷺ) کی ازواج ” اہل بیت“ میں داخل ہیں، اس لئے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی بیان کرتا ہے، اور جو بات آیت کے نزول کا سبب ہوتی ہے وہ آیت کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوتی ہے۔