سورة الأحزاب - آیت 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں۔ پھر جب (جنگ کا) خطرہ آن پڑتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آنکھیں [٢٤] پھیر پھیر کر آپ کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہوچکی ہو پھر جب خطرہ دور ہوجاتا ہے تو اموال غنیمت کے انتہائی [٢٥] حریص بن کر تیز تیز زبانیں چلانے لگتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو قطعاً ایمان نہیں لائے۔ لہٰذا اللہ ان کے اعمال برباد [٢٦] کر دے گا اور یہ بات اللہ کے لئے بہت آسان [٢٧] ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(16) منافقین مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں نہایت بخیل ہیں، نہ انہوں نے خندق کھودنے میں ان کی مدد کی، نہ ہی جہاد کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کرتے ہیں اور جب جنگ کی وجہ سے انہیں موت کا خوف لاحق ہوتا ہے تو غایت بزدلی کی وجہ سے ان کی آنکھیں دائیں اور بائیں گھومنے لگتی ہیں، جیسے اس آدمی کی کیفیت ہوتی ہے جس پر موت طاری ہو اور جب جنگ کا خطرہ ٹل جاتا ہے تو مسلمانوں کی عیب جوئی اور مذمت کے لئے اپنی زبانیں دراز کرتے ہیں اور انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں بڑے ہی بخیل ہیں اور اپنے ایمان میں غیر مخلص اور منافق ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو رائیگاں اور بے سود بنا دیا اور ایسا کرنا اس کے لئے بڑا ہی آسان تھا۔