يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہئے [١] اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانیے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
(1) امام شوکانی نے واحدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ” کافروں“ سے مراد ابوسفیان، عکرمہ اور ابوالاعور اسلمی ہیں، اور ” منافقوں“ سے مراد عبداللہ بن ابی اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد مشرکین مکہ کا ایک وفد ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ آیا، اور عبداللہ بن ابی معتب بن قشیر اور طممہ بن ابیرق کے ساتھ مل کر رسول اللہ (ﷺ) سے مطالبہ کیا کہ وہ معبود ان قریش پر نکیر کرنا بند کردیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” نبی“ کے لفظ کے ساتھ پکارا ہے، اس میں آپ کے لئے تعظیم اور آپ کی نبوت کا اعتراف واثبات ہے۔ آپ کو اور آپ کے پیروکار مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں، اللہ کی بندگی کریں اور گناہوں سے دور رہیں، اللہ کے اوامرونواہی کو بجا لائیں اور کافروں اور منافقوں کی بات مان کر دعوت توحید سے انحراف نہ کریں، اس لئے کہ وہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ان کی تو خواہش ہوتی ہے کہ مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوجائیں اور اپنا مشن چھوڑ کر انہی کی طرح مشرک و منافق بن جائیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑا ہی علم و حکمت والا ہے، اس لئے اے نبی ! اس کے اوامر کی اتباع اور اس کے نواہی سے اجتناب میں ہی ہر بھلائی ہے۔